شمالی وزیرستان کے قبائلی افغانستان میں پناہ گزیں

اپ ڈیٹ 13 جون 2014
قبائلی علاقے میں پاک فوج کی حالیہ کارروائی کے بعد اپنے علاقے سے زیادہ محفوظ سمجھتے ہوئے چھ ہزار افراد افغانستان منتقل ہوچکے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
قبائلی علاقے میں پاک فوج کی حالیہ کارروائی کے بعد اپنے علاقے سے زیادہ محفوظ سمجھتے ہوئے چھ ہزار افراد افغانستان منتقل ہوچکے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

پشاور: پاک فوج کی جانب سے شروع کی جانے والی حالیہ ٹارگٹڈ کارروائی کے بعد سے احمد زئی وزیر اور دوسرے قبائل کے چھ ہزار افراد نے افغانستان کے صوبے خوست میں پناہ لے رکھی ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شمالی وزیرستان کے قبائلی افراد اپنے علاقے سے زیادہ پڑوسی ملک کو محفوظ سمجھتے ہیں۔

میرانشاہ سے تعلق رکھنے والے قبائلی سردار نے کہا ’’فاٹا کے ہزاروں بے گھر افراد کی کیمپوں کے اندر اور باہر حالتِ زار طویل قیام کے خدشے کے پیش نظر میں نے ضلع بنوں کے ملحقہ علاقوں میں آلودہ خیموں میں رکھنے کے بجائے اپنے خاندان کو افغانستان لے جانے کا ارادہ کیا ہے۔‘‘

بہت سے خاندان پہلے ہی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے سرحد پار کرکے افغانستان جاچکے ہیں۔

شمالی وزیرستان، اورکزئی، کرم اور خیبر ایجنسیوں سمیت دیگر قبائلی ایجنسیوں کے بے گھر افراد پچھلے سات سالوں سے کیمپوں کے اندر اور باہر خوفناک حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔

اب تک خیبر پختونخوا میں فاٹا سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ کی تعداد میں خاندانوں کو رجسٹرڈ کیا گیا ہے۔

حافظ گل بہادر کی سربراہی میں طالبان شوریٰ نے پہلے ہی مقامی باشندوں سے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ خیبرپختونخوا کے امدادی کیمپوں کی طرف بڑھنے کے بجائے افغان سرحد سے قریب علاقے میں منتقل ہوجائیں۔

جب افغان حکومت کے ایک اہلکار سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ شمالی وزیرستان ایجنسی سے چھ ہزار چھ سو بیالیس افراد جن میں ایک ہزار چار سو بانوے بچے بھی شامل ہیں، صوبہ خوست پہنچے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں انہیں بنیادی سہولیات فراہم کردی گئی ہیں۔

ان خاندانوں نے پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی کا آغاز ہونے کے بعد خوست کے علاقے میں سرحد پار کی تھی۔

افغان صوبہ خوست کے گورنر کے ترجمان مبارض زادران نے بتایا ’’صوبائی حکومت کی جانب سے ان پناہ گزینوں کے لیے خوست کے ضلعوں گرباز، نادرشاہ کوٹ، مندوزئی اور اسماعیل خیل میں جگہ فراہم کردی گئی ہے۔ جبکہ صوبائی درالحکومت میں بھی ان کے لیے ایک مقام مختص کردیا گیا ہے۔

خوست سے بذریعہ ٹیلی فون ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان وزارتِ صحت کی ہدایت پر پاکستانی قبائلیوں کے لیے پولیو ویکسینیشن کا پروگرام شروع کردیا گیا ہے۔

طالبان نے 2012ء سے شمالی اور جنوبی وزیرستان کی ایجنسیوں میں پولیو ویکسینیشن پر پابندی لگا رکھی ہے۔

فیڈرل اسٹیٹ اور سرحدی علاقوں کی وزارت کے حکام نے شمالی وزیرستان کے لوگوں کی افغانستان میں پناہ لینے کی رپورٹوں کو مسترد کردیا ہے۔

تاہم ایک اہلکار نے بتایا کہ اس سرحد پر کوئی باڑھ نہیں ہے، لہٰذا شمالی وزیرستان کے باشندے جن کی جائیدادیں افغانستان میں ہیں، وہ آجا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا ’’یہ معمول کی نقل و حرکت ہے۔ خانہ بدوش خاندان خاص طور پر سیدگئی، گرباز اور شیرخیل قبیلوں سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد جو افغانستان کو زیادہ محفوظ خیال کرتے ہیں، وہ باقاعدگی کے ساتھ افغانستان آتے جاتے رہتے ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ سہولت کے حق کے تحت قبائلی افراد کی سرحد پار نقل و حرکت کو روکا نہیں جاسکتا۔

فیڈرل اسٹیٹ اور سرحدی علاقوں کی وزارت کے اہلکار نے کہا کہ بہت سے خاندان سرحد پار جائیدادیں رکھتے ہیں، لہٰذا وہ کسی بھی رکاوٹ کے بغیر باقاعدہ افغانستان جاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغان حکومت اس مسئلے کا ناجائز فائدہ اُٹھا سکتی ہے۔

سہولت کا حق ڈیورنڈ لائن معاہدے کی ایک منفرد شق ہے۔ یہ معاہدہ برطانوی ہندوستان اور اس وقت کے افغان حکمرانوں کے درمیان طے پایا تھا، جس کے تحت سرحد کے دونوں اطراف کے منقسم قبیلوں کو بغیر کسی رسمی کارروائی اور پابندیوں کے سرحد پار کرنے کی اجازت ہے۔

سیکیورٹی فورسز نے لوگوں کو افغانستان جانے سے روکنے کے لیے میرانشاہ غلام خان روڈ کو بند کردیا ہے۔

تاہم مبینہ طور پر قبائلی خاندان سرحد پار کرنے کے لیے سنسان راستوں کا استعمال کررہے ہیں۔

پاک افغان سرحد پر کوئی انتظام موجود نہیں ہے اور سہولت کے حق کے علاوہ بھی لوگ باآسانی سرحد پار کرسکتے ہیں۔

2001ء کے دوران امریکی حملے سے پہلے تحریک نفاذِ شریعت محمدی کے مولانا صوفی محمد کی قیادت میں مالاکنڈ ڈویژن اور ملحقہ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے مقامی جنگجوؤں کی خلاف طالبان کی لڑائی میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے سرحد پا ر کی تھی۔

جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد یا تو مارے گئے، قید کرلیے گئے یا افغانستان میں لاپتہ ہوگئے تھے۔

تاہم مبارض زدران نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ صرف ایسے خانہ بدوش خاندانوں نے ہی افغانستان میں پناہ لی ہے، جن کے خوست میں گھر موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت نہیں ہے۔ میرعلی، میرانشاہ اور شمالی وزیرستان کے دیگر حصوں سے یہاں آنے والے تین سو اکسٹھ سے زیاد کی تعداد میں خاندانوں کی خوست میں کوئی جائیدادیں نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ان سب کا باقاعدہ اندراج کیا ہے۔

خوست کے گورنر کے ترجمان نے کہا کہ افغان حکومت کی جانب سے پناہ گزینوں کو بنیادی ضروریات فراہم کی گئی ہیں اور ہم شمالی وزیرستان سے آنے والے مزید بے گھر افراد کو سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’افغان حکومت نے وزیرستان کے لوگوں کو صرف انسانی بنیادوں پر پناہ کی پیشکش کی ہے اور یہ لوگ کسی بھی وقت اپنے وطن واپس جاسکتے ہیں۔‘‘

حکام نے کہا کہ افغان حکومت نے نئے پناہ گزینوں کو امداد فراہم کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ اور کابل میں دیگر انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی درخواست کی ہے۔

مبارض زدران نے کہا ’’اقوامِ متحدہ کے اداروں نے اصولی بنیادوں پر اس درخواست کو قبول کرلیا ہے۔‘‘

تبصرے (0) بند ہیں