ایران، عراق کی مدد کرنے کیلیے تیار
تہران: ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ اگر عراق نے کہا تو ہم ان کی مدد کرنے کو تیار ہیں کیونکہ ہمارے پاس دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے سوال کوئی چارہ نہیں۔
ہفتے کو صدارتی انتخابات میں کامیابی کا ایک سال مکمل ہونے پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روحانی نے کہا کہ شمالی عراق میں شہروں پر قبضہ کرنے والے شدت پسندوں کا تعلق ان عراق رہانماؤں سے ہے جنہیں اپریل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں شکست ہوئی تھی۔
انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ تاحال عراق کی جانب سے کسی قسم کی مدد طلب نہیں کی گئی لیکن ساتھ ساتھ واضح کیا کہ اگر مدد مانگی گئی تو ہم ان کا ساتھ دیں گے۔
’اگر عراق کی جانب سے مطالبہ سامنے آیا تو ہم اس کا جائزہ لیں گے، ابھی تک مدد کی کوئی درخواست نہیں کی گئی لیکن ہم عالمی قوانین میں رپتے ہوئے مدد کرنے کو تیار ہیں‘۔
تاہم اس موقع پر انہوں نے فوجی کارروائی کے امکان کو رد کردیا۔
’ہماری افواج کی عراق میں کارروائی کا معاملہ ابھی سامنے نہیں آیا لیکن ہمیں لگتا ہے کہ ایسی صورتحال پیدا نہیں ہو گی۔
یاد رہے کہ ماضی میں عراق اور ایرا کے درمیان تعلقات سخت کشیدہ رہے ہیں لیکن 2003 میں امریکا کی عراق پر چڑھائی اور صدام حسین کی موت کے بعد ایران کے عراق کی شیعہ حکومت سے سیاسی اور معاشی تعلقات میں واضح بہتری آئی۔
ایک سوال کے جواب میں روحانی نے سنی شدت پسندوں سے مقابلے کے لیے امریکی مدد اور تعاون پر بھی مشروط آمادگی ظاہر کی۔
’اگر امریکا، عراق یا کسی اور ملک میں دہشت گردوں کے خلاف مزاحمت کرتا ہے تو ہم ان سے تعاون پر غور کر سکتے ہیں‘۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز عراق کے شیعہ مذہبی پیشوا آیت اللہ سیستانی نے سنی شدت پسندوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام سے ہتھیار اٹھانے کی اپیل کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر سیعہ حکومتوں سے ان کی مدد کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
امریکی اصدر بارک اوباما نے بھی عراق کی مدد کرنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عراق کی مدد کرنے کے حوالے سے تمام امکانات کا جائزہ لیں گے تاہم انہوں نے عراق میں امریکی فوجی بھیجنے کے امکان کو یکسر رد کردیا تھا۔
غیر ملکی خر رساں اداروں نے اپنے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایران نے عراق کی مدد کے لیے پہلے ہی اپنی انقلابی افواج کے دستے بھیج دیے ہیں تاکہ عسکریت پسندوں کی پیش قدمی کو روکا جا سکے لیکن ایرانی حکام نے اس کی تردید کی ہے۔