عراق پر کارروائی: اوباما کو کانگریس کی منظوری کی ضرورت نہیں

اپ ڈیٹ 19 جون 2014
ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک اہم سینیٹر مچ میک میکونل امریکی صدر اوباما کے ہمراہ۔ —. فائل فوٹو رائٹر
ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک اہم سینیٹر مچ میک میکونل امریکی صدر اوباما کے ہمراہ۔ —. فائل فوٹو رائٹر

واشنگٹن: امریکہ کے صدر براک اوباما نے امریکی پارلیمنٹ کے رہنماؤں سے کہا ہے کہ عراق میں کسی بھی کارروائی کے لیے انہیں قانون سازوں کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔

ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک اہم سینیٹر مچ میک میکونل نے صدر اور پارلیمنٹ کے سینئر رہنماؤں کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد یہ معلومات میڈیا کو فراہم کیں۔

یاد رہے کہ عراق نے امریکا کے ساتھ ایک سیکیورٹی معاہدے کے تحت دہشت گردوں کے خلاف فضائی حملے کرنے کی درخواست کی تھی۔

اس درخواست کا انکشاف عراقی وزیر خارجہ ہوشیار زیباری نے جدہ میں اسلامی ملکوں کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کے ایک مشاورتی اجلاس کے موقع پر کیا تھا۔

بعد میں امریکی حکام نے بھی تصدیق کی تھی کہ عراقی حکومت نے امریکا سے فضائی حملوں کی مدد طلب کی ہے، تاکہ شدت پسندوں کی پیش قدمی روکی جا سکے، جنہوں نے شمالی عراق کے اہم شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔

امریکی سینیٹ کی ایک ذیلی کمیٹی کو چیئرمین جنرل مارٹن ڈیمپسی نے باضابطہ طور پر اس بارے میں آگاہ کیا تھا کہ عراق نے امریکا سے اُن شدت پسندوں کے خلاف فضائی حملوں کی درخواست کی ہے، جن کی جانب سے بدھ کے روز عراق کی ایک اہم آئل رفائنری پر حملہ کیا گیا تھا۔

ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لنڈسی گراہم نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اِس درخواست کا مثبت جواب دینا خود امریکی قومی سلامتی کے مفاد میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ بحیثیت ایک سابق فوجی، اُنہیں اس بات پر سخت افسوس ہوا ہے کہ شدت پسندوں نے عراق کا محاصرہ کر لیا ہے۔

اسی دوران امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن اور عراقی وزیر اعظم نوری مالکی نے عراقی فورسز کی مدد کے لیے امریکہ کے اضافی اقدامات پر تبادلۂ خیال کیا۔

وائٹ ہاؤس سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں نے دہشت گردوں پیش قدمی روکنے کے طریقوں پر غور کیا۔

آئی ایس آئی ایس (اسلامی اسٹیٹ آف عراق اور القاعدہ شام) کو حاصل ہونے والی حالیہ برتری کے حوالے سے امریکی رد ّعمل پر تبادلۂ خیال کے لیے اوباما نے بدھ کو کانگریس کے رہنماؤں کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی تھی۔

اس ملاقات کے بعد سینیٹر مچ میک میکونل نے کہا کہ صدر نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اس حوالے سے جو بھی قدم اُٹھائیں گے، ان کے خیال میں اس کے لیے انہیں کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں۔

خبررساں اداروں کے مطابق وہائٹ ہاؤس نے بھی اس سوال کو نظر انداز کر رکھا ہے کہ کیا عراق میں کسی فوجی کارروائی کے لیے امریکی کانگریس کی منظوری ضروری ہے یا نہیں۔

بی بی سی نے اپنے نمائندے کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکا کی خصوصی فورس آئی ایس آئی ایس پر کارروائی کے لیے تیار ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال شام پر ممکنہ حملے کے لیے امریکی صدر اوباما نے کانگریس کی منظوری نہیں لی تھی۔ لیکن جب یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ کانگریس ان کے اس اقدام کی حمایت نہیں کرے گی، تو اُنہوں نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔

اسی دوران کانگریس کے بعض اراکین نے اوباما انتظامیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے افغانستان میں امریکی فوجی کی رہائی کے لیے گوانتاناموبے کی جیل سے پانچ قیدیوں کو رہا کرنے کے فیصلے پر پارلیمنٹ سے مشورہ نہیں کیا۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ صدر اوباماعراق میں کارروائی کا یکطرفہ فیصلہ کر سکتے ہیں، کیونکہ عراقی حکومت نے آئی ایس آئی ایس کے شدت پسندوں کے خلاف امریکا سے فضائی حملے کی درخواست کی ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران آئی ایس آئی ایس نے عراق کے کچھ بڑے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق آئی ایس آئی ایس اور ان کے ساتھی گروپس کو عراقی صوبے دیالہ اور صلاح الدین میں بھی برتری حاصل ہوتی جارہی ہے۔

بی بی سی کے دفاعی نامہ نگار فرینک گارڈنر کا کہنا ہے کہ بحیثیت امریکی صدر اوباما کو فضائی حملے سے لے کر اضافی تربیت دینے تک کے کئی اختیارات حاصل ہیں۔

بدھ کو اجلاس سے پہلے ڈیموکریٹ رہنما ہیری ریڈ نے کہا کہ وہ کسی صورت میں بھی عراقی خانہ جنگی میں امریکی فوجیوں کو شامل کرنے کے فیصلے کی حمایت نہیں کریں گے۔

بی بی سی کے جوناتھن مارکس کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ عراقی حکومت نے مدد طلب کی ہے ، تاہم اب تک امریکہ نے وہاں کسی طرح کی کارروائی سے گریز کیا ہے۔

تاہم اس مرتبہ اوباما انتظامیہ فضائی حملے کی تیاری بھی کر رہی ہے۔

امریکی طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس جارج ایچ ڈبليو بش کو خلیج عرب میں اسٹریٹجک محاذ کی جانب روانہ کیا جا چکا ہے.

اس طیارہ بردار بحری جہاز کے ساتھ کروزر یو ایس ایس فلپائن سی اور تباہ کن یو ایس ایس ٹركسٹن بھی ہیں، جو زمین پر موجود کسی بھی ہدف پر کروز میزائل داغ سکتے ہیں۔

اگر ضروری ہوا تو امریکی فضائی طاقت کو اس علاقے میں پہلے سے تعینات دیگر جنگی طیاروں اور آلات کی مدد حاصل ہو سکتی ہے۔

امریکہ کی یہ تیاریاں تو واضح طور سے دیکھی جاسکتی ہیں تاہم اس کے ساتھ ہی امریکا خفیہ طریقے سے یہ جاننے کی کوشش بھی کرے گا کہ زمینی حقائق کیا ہیں۔

اگرچہ طیاروں کے ذریعے حملے کےحوالے سے کئی مسائل بھی درپیش ہیں۔ اوّل یہ کہ اگر آئی ایس آئی ایس کے جنگجو تیزی سے بغداد کی طرف بڑھتے ہیں، تو امریکہ کی طرف سے فضائی حملے کا زیادہ امکان ہوگا۔ لیکن عام طور پر ہلکی گاڑیوں کے ساتھ پیش قدمی کرنے والا آئی ایس آئی ایس کا دستہ تیزی سے آگے بڑھتا ہے۔

کچھ خاص حالات میں انہیں عام شہریوں سے الگ کرنا مشکل ہوگا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکی زمینی سطح پر کچھ خاص سیکورٹی فورسز کو تعینات کریں، جو عراقی فوجیوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے، تاکہ ہدف کی شناخت کی جا سکے۔

موصل اور تكريت نامی عراقی شہروں سمیت عراق بڑے حصے پر قبضہ کرنے کے ساتھ ہی شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ آف عراق اور القاعدہ شام آئی ایس آئی ایس کا کردار اب ایک بڑا خطرہ بن چکا ہے۔

آئی ایس آئی ایس ایک جہادی گروپ ہے جو عراق کے ساتھ ساتھ شام میں بھی فعال ہے۔

آئی ایس آئی ایس کی تشکیل اپریل 2013ء کے دوران ہوئی اور القاعدہ سے الگ رہتے ہوئے یہ تیزی سے ترقی کرتا گیا۔ جلد ہی القاعدہ نے اسے اپنے گروپ سے خارج کر دیا، لیکن اس کے باوجود آئی ایس آئی ایس نے شام میں سرکاری فورسز کے خلاف لڑائی جاری رکھی، اور دیکھتے ہی دیکھتے اہم جہادی گروپ بن گیا۔ اب اس کو عراق میں تیزی سے فوجی برتری حاصل ہوتی جارہی ہے۔

اس کے حجم کے بارے میں واضح طور پر معلومات نہیں ملتی ہیں، لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں ہزاروں جنگجو ہیں، جن میں بہت سے غیر ملکی جہادی شامل ہیں۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ خطرناک جہادی گروپ کے طور پر یہ القاعدہ کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔

اس تنظیم کی قیادت ابو بکر امام بغدادی کے پاس ہے، تاہم ان کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی پیدائش شمالی بغداد کے سمارا میں 1971ء میں ہوئی اور 2003ء میں امریکا کی قیادت میں عراق پر کیے گئے حملے کے بعد عراق میں بھڑکنے والی بغاوت میں وہ بھی شامل ہو گئے۔

2010ء میں وہ عراقی القاعدہ کے لیڈر کے طور پر اُبھرے۔

بغدادی کو مؤثر جنگی حکمت عملی بنانے کا ماہر تصور کیا جاتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ نوجوان جہادیوں کے لیے القاعدہ کے مقابلے آئی ایس آئی ایس زیادہ پُرکشش ہو گئی ہے۔

شام کے دوسرے باغی گروپوں کے برعکس آئی ایس آئی ایس شام سے عراق تک پھیلے ہوئے خطے میں ایک اسلامی امارت کے قیام کے لیے کام کر رہا ہے۔

اب تک اس گروپ کو قابل ذکر فوجی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ اس گروپ کو اپنے کنٹرول والے علاقوں میں ظالمانہ حکومت کے لیے کافی شہرت ملی، تاہم جون میں جب آئی ایس آئی ایس نے موصل پر قبضہ کیا، تو دنیا بھر کی توجہ اس پر مرکوز ہوگئی۔

کہا جاتا ہے کہ آج مشرقی شام میں اپنے زیرِکنٹرول تیل کے کنووں سے آئی ایس آئی ایس کو کافی آمدنی ہوتی ہے، یہ گروپ مبینہ طور پر یہ تیل شام کی حکومت کو ہی فروخت کرتا ہے۔

القاعدہ کے سربراہ الظواہری نے آئی ایس آئی ایس سے عراق پر توجہ دینے اور شام سے دستبردار ہونے کے لیے کہا تھا، لیکن آئی ایس آئی ایس کے سربراہ بغدادی اور ان کے ساتھی جنگجوؤں نے القاعدہ کے چیف کا مشورہ ٹھکرا دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں