انڈیا و پاکستان اقتصادی تعاون پر توجہ دیں: ریسرچ رپورٹ

اپ ڈیٹ 20 جون 2014
ہندوستان کے وزیراعظم نریندرا مودی، پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کا استقبال کررہے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
ہندوستان کے وزیراعظم نریندرا مودی، پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کا استقبال کررہے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: اگر پاکستان اور ہندوستان جھڑپوں سے بچنا چاہتے ہیں، تو اُن کی افواج کو اپنی متعلقہ سرحدوں سے ایک مخصوص فاصلہ برقرار رکھنا چاہیٔے۔

’ہندوستان اور پاکستان: تصادم کی قیمت پر یہ موقع‘ کے زیرعنوان ایک رپورٹ میں یہ بیان شامل ہے، جمعرات کے روز بین الاقوامی اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے مرکز پر جس کی رونمائی کی گئی۔

اس رپورٹ کو بین الاقوامی تعلقات کے دو ماہرین نے تحریر کیا ہے، ان میں سے ایک شجاع نواز کا تعلق پاکستان سے اور دوسرے موہن گروسوامی کا تعلق ہندوستان سے ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان بات چیت سے ناصرف باہمی اعتماد میں اضافہ ہوگا، بلکہ دونوں افواج غیر ریاستی عناصر کے خلاف جنگ میں اپنے اپنے تجربات کا بھی ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کرسکیں گی۔

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر ایک اہم تنازعہ ہے، اور یہ ایک نیوکلیئر جنگ کی بنیاد بن سکتا ہے۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ ہندوستان کا ایک اسی طرح کا سرحدی تنازعہ چین کے ساتھ بھی ہے، جس کی وجہ سے 1962ء اور 1967ء میں جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ اب دونوں ملکوں نے مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے پر اتفاق کیا ہے، اور اقتصادی تعلقات پر توجہ مرکوز کردی گئی ہے۔

’’ہندوستان اور چین کے درمیان تجارت کا حجم 72 ارب ڈالرز سے بھی زیادہ ہے، جو 2015ء تک 100 ارب ڈالرز تک بڑھ سکتی ہے۔‘‘

’’اگر دونوں ملک سنجیدگی سے آگے بڑھیں تو اسی طرح کا ایک معاہدہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان بھی کیا جاسکتا ہے۔ تجارتی تعلقات قوموں کو زیادہ صلح جو بنادیتے ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تجارت کو جی ڈی پی کے 1.5 فیصد تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ پھل اور سبزی کے لیے ہندوستان کی بڑھتی ہوئی طلب، پاکستانی کاشتکاروں کو ایک بہت بڑی منڈی فراہم کردے گی۔‘‘

’’تعاون کی فضا دونوں ملکوں کو وادیٔ سندھ میں ہائیڈرو الیکٹرک کو مشترکہ طور پر ترقی دینے کی بھی قابل بنائے گی۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ مشترکہ طور پر وادیٔ سندھ سے زیادہ سے زیادہ 8000 میگاواٹ تک بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، جسے دونوں ملک ایک دوسرے کو فروخت کر سکیں گے۔‘‘

’’دونوں ملکوں کے مابین ایک اور اہم شعبہ جسے ترقی دی جاسکتی ہے، تیل اور گیس کا ہے، جس کی لائنوں کو ہائیڈروکاربن کے برآمدکنندگان، مثلاً ایران، مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیا کو ہندوستان و پاکستان کی منڈیوں کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے۔ پٹرولیم کی مصنوعات کے لیے مشترکہ پایپ لائنوں کی تعمیر کرنا دونوں ملکوں کے لیے قابلِ عمل ہوگا۔‘‘

اسکائپ کے ذریعے اس تقریب سے بات کرتے ہوئے رپورٹ کے شریک مصنف موہن گروسوامی نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کو تجارت شروع کرنی چاہیٔے، جو مسائل کے حل کا بہترین راستہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان کو یہ خوف ہے کہ ہندوستان پاکستان سے کہیں زیادہ بڑا ملک ہے۔ اسی طرح کا معاملہ ہندوستان کے ساتھ تھا، اس لیے کہ چین ہندوستان سے کہیں زیادہ بڑا ملک ہے، لیکن اب ہندوستان اور چین اپنی تجارت کو 100 ارب ڈالرز تک لے جارہے ہیں۔پاکستان اور ہندوستان کو اقتصادی تعلقات کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیٔے۔‘‘

موہن گروسوامی نے کہا ’’جب وہ انتخابات میں حصہ لے رہے تھے تو نیوکلیئر پالیسی کے سلسلے میں نریندرا مودی کا مؤقف مختلف تھا،لیکن اب جب کہ وہ وزیراعظم بن گئے ہی، ریاستی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔‘‘

ان کے علاوہ شجاع نواز نے بھی اسکائپ کے ذریعے خطاب کیا، انہوں نے کہا ’’ہندوستان کی معیشت اس وقت پاکستان سے سات گنا بڑی ہے اور 2050ء تک یہ پاکستان کی معیشت سے 16 گنا بڑی ہوجائے گی۔ لہٰذا اس کا واحد حل یہ ہے کہ بجائے دفاعی بجٹ میں اضافے کے معیشت پر توجہ دی جائے۔‘‘

ان کا کہنا تھا ’’ہندوستان کی ضرورت ہے کہ وہ ہرسال ڈیڑھ کروڑ ملازمین پیدا کرے، اور پاکستان کو ہر سال تیس لاکھ ملازمتین پیدا کرنے کی ضرورت ہے، لہٰذا انہیں چاہیٔے کہ وہ صرف اقتصادی خودمختاری پر توجہ دیں۔‘‘

بین الاقوامی اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے مرکز سی آئی ایس ایس کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر علی سرور نقوی نے اس موقع پر کہا کہ دونوں ملکوں کو چاہیٔے کہ مل کر کام کرنے کے راستے تلاش کریں۔

انہوں نے کہا ’’ماضی کے دوران بدقسمتی سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مذاکرات میں مختلف اسباب کی وجہ سے رکاوٹیں پیدا ہوتی رہی تھیں۔ دونوں ملکوں کو مذاکرات کے عمل کو مستقل بنیادوں پر شروع کرنا چاہیٔے۔‘‘

لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درّانی نے کہا کہ حکومت کو مختلف پہلوؤں کا تجزیہ کرنا چاہیٔے۔ یہاں تک کہ اس قیمت کا بھی جو امن کے لیے ادا کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا ’’حکومت ایسے کسی بھی عمل کو شروع نہیں کرسکتی، جس سے اسٹیٹس کو میں تبدیلی آجائے۔ کشمیر کے دونوں اطراف سے بس سروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جسے اچھی نظر سے دیکھا جارہا تگھا، لیکن اب اس کو بھی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔‘‘

ایک صحافی شاہد الرحمان نے کہا کہ پانی ہندوستان اور پاکستان کے درمیان موجود مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ تھا۔ دونوں ممالک اس وقت جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے، جب سندھ طاس معاہدہ پر 1960ء کے دوران دستخط کیے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’’ہندوستان نے ایک بار پھر ان دریاؤں پر ڈیموں کی تعمیر شروع کردی ہے، جو پاکستان کے لیے مخصوص ہیں۔ دونوں ملکوں کو تمام مسائل کے حل کے لیے دوبارہ بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

سی آئی ایس ایس کے تحقیقی تجزیہ نگار سید محمد علی نے کہا کہ جنوبی ایشیا کی تاریخ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان قائم کشیدگی کی وجہ سے بہت سے مواقع برباد ہوتے رہے تھے۔

انہوں نے کہا ’’سیکیورٹی خدشات سے نمٹنے کے لیے ایک فریم ورک تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان پانی ایک اہم مسئلہ ہے۔‘‘

تبصرے (0) بند ہیں