بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد کا ہجوم بنوں میں داخلے کا منتظر

اپ ڈیٹ 21 جون 2014
سید گئی چیک پوسٹ پر لوگوں کی قطار، فاٹا کے حکام کا کہنا ہے کہ اب تک دو لاکھ ستائیس ہزار اننچاس افراد کا اندراج کیا گیا ہے، جن میں ایک لاکھ بچے شامل ہیں۔ —. ڈان فوٹو
سید گئی چیک پوسٹ پر لوگوں کی قطار، فاٹا کے حکام کا کہنا ہے کہ اب تک دو لاکھ ستائیس ہزار اننچاس افراد کا اندراج کیا گیا ہے، جن میں ایک لاکھ بچے شامل ہیں۔ —. ڈان فوٹو

پشاور، بنوں: بے گھر ہونے والے ہزاروں مرد، خواتین اور بچے جمعہ کے روز سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں کے قریب پھنس کر رہ گئے تھے۔

شمالی وزیرستان سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے بعد یہ لوگ حکام سے آگے بڑھنے کے لیے منظوری کا انتظار کر رہے تھے۔

فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (ایف ڈی ایم اے) کا کہنا ہے کہ بنوں میرانشاہ روڈ پر قائم سید گئی چیک پوائنٹ پر دو لاکھ ستائیس ہزار اننچاس افراد ہیں کا اندراج کیا گیا ہے، جن میں ایک لاکھ بچے شامل ہیں۔

ایک اہلکار نے بتایا کہ ہزاروں خاندان بنوں کے راستے میں تھے۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کرفیو میں نرمی کے دوران یہ گھرانے بنوں کے لیے چل پڑے تھے۔ سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں پر لوگوں کی طویل قطاریں دیکھی گئیں، جو حکام کی جانب سے آگے بڑھنے کی منظوری ملنے کے منتظر تھے۔

ایک قبائلی نوجوان نصرمن اللہ نے بتایا ’’ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کا ایک سمندر ہے جو بنوں کی جانب بڑھ رہا ہے، ان میں سے کچھ تو پیدل چل رہے ہیں اور کچھ اپنے سامان کے ساتھ ٹرکوں پر سوار چلے جارہے ہیں۔‘‘

نصر من اللہ نے کہا کہ وہ جمعرات کے روز میرانشاسے نکل گئے تھے اور جمعہ کی صبح سے پہلے بکا خیل پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ بے گھر ہونے والے خاندان گاڑیوں پر سوار تھے، چوکیوں کے سامنے ان کی طویل قطاریں لگی ہوئی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے علاقوں میں بوڑھے مردوں، خواتین اور بچوں کے لیے پناہ حاصل کرنے کو ترجیح دی ہے۔

ایک اور قبائلی فرد عبدالکریم نے بتایا کہ ڈرائیور اور گاڑیوں کے مالکان ٹرانسپورٹ کی قلت کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو لوٹ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’میں نے اپنے خاندان کو میرانشاہ سے بنوں منتقل کرنے کے لیے ایک ٹرک کے مالک کو 65 ہزار روپے ادا کیے تھے۔‘‘

شمالی وزیرستان میں کرفیو کی تین دن کی نرمی جمعہ کو ختم ہونا تھی، اور یہ واضح نہیں تھا کہ یہ ہفتے کو بھی جاری رہے گی یا نہیں۔

بنوں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ اس ضلع میں قبائلی گھرانوں کی بڑی تعداد کی آمد کی وجہ سے یہاں خوراک کی قلت کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے۔

اس کے علاوہ یہاں رہائش کی بھی کمی ہے، اور بہت سے خاندانوں نے اسکول کی عمارتوں میں پناہ لی ہوئی ہے، جبکہ لوگوں کی کافی بڑی تعداد کھلے آسمان کے نیچے پڑی ہے۔

بنوں کے شہریوں کا کہنا ہے کہ بہت سے بے گھر ہونے والے خاندان پنجاب کی جانب بڑھ رہے تھے، تاکہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے پاس پناہ حاصل کرسکیں۔

وزیرِ مملکت برائے فرنٹیئر ریجن لیفٹننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے پشاور میں صحافیوں کو بتایا کہ حکومت بے گھر ہونے والے افراد کی حالتِ زار سے آگاہ ہے اور ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بنوں کے کمشنر کو بے گھر افراد کے لیے کیے جانے والے انتظامات کا نگران مقرر کیا ہے۔

وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کے سول سیکریٹیریٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ امکان ہے کہ نادرا سے تصدیق کے بعد خوارک کی پرچیاں اور سات ہزار فی مہینہ فی خاندان کا راشن کارڈ بے گھر ہونے والے افراد کے لیے جاری کیا جائے گا۔

اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک معاہدے کے تحت بے گھر ہونے والے افراد کو موبائل فون کی سم بھی فراہم کی جائے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں