شمالی وزیرستان سے چار لاکھ 30 ہزار افراد کا انخلا
بنوں/پشاور: پاکستان فوج نے شمالی وزیرستان کے رہائشیوں کو آج تک کی مہلت دیتے ہوئے علاقے سے نکل جانے کی ہدایت کی ہے جس کے بعد عسکریت پسندوں کے خلاف بڑی زمینی کارروائی شروع ہونے کا امکان ہے۔
اس وقت تک کم از کم چار لاکھ 30 ہزار افراد شمالی وزیرستان سے قریبی پاکستانی علاقوں اور پڑوسی ملک افغانستان میں نقل مکانی کرچکے ہیں، جو کہ حالیہ برسوں میں پاکستان میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی نقل و حمل ہے۔
ایک فوجی عہدیدار نے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ سے ٹیلیفون پر رائٹرز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس قبائلی علاقے کے رہائشیوں کیلئے یہاں سے نقل مکانی کا آخری دن ہے، جس کے بعد کل سے یہاں کرفیو نافذ کرکے زمینی کارروائی کی تیاریاں شروع کردی جائیں گی۔
جو لوگ علاقے چھوڑ نہیں سکے ان کی تعداد ابھی واضح نہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ محفوظ مقامات جیسے بنوں جہاں بیشتر آئی ڈی پیز نے رخ کیا ہے، جانے کیلئے گاڑیوں کا کرایہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
بنوں پہنچنے والے ایک شخص ذاکر اللہ خان کا کہنا تھا کہ جو لوگ کرایہ ادا کرسکتے تھے وہ قبائلی علاقے سے نکل گئے ہیں، مگر متعدد افراد تاحال شمالی وزیرستان میں موجود ہیں اور وہاں سے نہ نکل پانے کی صورت میں لڑائی کے دوران ان کے مارے جانے کا خدشہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈرائیورز نے کرایہ اتنا زیادہ بڑھا دیا ہے جو غریب لوگ ادا کر ہی نہیں سکتے، جبکہ دیگر افراد نے شکایت کی کہ حکومت نے ان کی مدد کیلئے مناسب اقدامات نہیں کئے، یہی وجہ ہے کہ بیشتر آئی ڈی پیز نے سرکاری کیمپوں کی بجائے اپنے رشتے داروں کے گھر میں رہنے کو ترجیح دی۔
ان پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان کی بستیاں اب ویرانی کا منظر پیش کررہی ہیں۔
ایک شخص شاد میر وزیر کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں وزیرستان کو اتنا ویران اور خوفناک نہیں دیکھا، تاہم اس کے بقول اب بھی طالبان عسکریت پسندوں کی بڑی تعداد کچھ دیہات میں چھپی ہوئی ہے۔
ڈبلیو ایف پی کی طرف سے آئی ڈی پیز میں امداد کی تقسیم شروع
بنوں: خوراک کے عالمی ادارے ڈبلیو ایف پی نے فوجی آپریشن کے نتیجے میں شمالی وزیرستان کے قبائلی خطے سے نقلِ مکانی پر مجبور ہونے والے لاکھوں افراد (آئی ڈی پیز) میں امداد کی تقسیم کا سلسلہ پیر کے روز سے شروع کردیا ہے۔ان پناہ گزینوں کی امدادی سرگرمیوں میں تاخیر پر حکام سے جھڑپ بھی ہوچکی ہے۔**
واضح رہے کہ کراچی میں ملک کے مصروف ترین ایئرپورٹ پر ہلاکت خیز حملے کے بعد پاکستان نے گزشتہ ہفتے شمالی وزیرستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے مضبوط گڑھ سے ختم کرنے کے لیے ایک فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔
فضائی حملے، ٹینکس اور بھاری توپ خانے کے ساتھ جاری اس آپریشن نے چار لاکھ سے زیادہ افراد کو نقلِ مکانی پر مجبور ہونا پڑا ہے، ان کی ایک بڑی تعداد قبائلی علاقے سے نزدیک ترین شہر بنوں کے پہنچی ہے۔
فوج کے مطابق اس آپریشن میں اب تک تقریباً 280 عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں، لیکن اس تعداد کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کی سرپرستی میں کام کرنے والی ایک مقامی غیرسرکاری تنظیم سے وابستہ اہلکار سیف اللہ خان کا کہنا ہے کہ بنوں میں خوراک کی تقسیم کے لیے قائم ایک مرکز سے راشن کی فراہمی شروع کی گئی ہے، جس میں آٹا، پکانے کا تیل، دالیں اور توانائی بخش بسکٹس شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے تمام ضروری انتظامات کیے ہیں، جو روزانہ کی بنیاد پر پندرہ ہزار خاندانوں کو راشن کی ضروریات فراہم کرنے کے لیے کافی ہیں۔‘‘
![]() |
بنوں میں رجسٹریشن کے مرکز پر بے گھر افراد کی ایک طویل قطار۔ —. فائل فوٹو |
ایک مقامی فٹبال گراؤنڈ جہاں یہ خوراک کا مرکز قائم کیا گیا تھا، لگ بھگ دوہزار افراد اکھٹا تھے اور ٹرکوں کی پہلی کھیپ کا انتظار کررہے تھے۔
جب تقسیم میں کئی گھنٹوں کی تاخیر ہوگئی تو وہ پولیس کے ساتھ جھگڑ پڑے، ان احتجاج کرنے والوں کو منتشر کرنے کے لیے پولیس ہوائی فائرنگ پر مجبور ہوگئی۔
شمالی وزیرستان کے ایسوری گاؤں کے ایک ساٹھ برس کے رہائشی نور بات خان نے حکام پر تنقید کی کہ انہوں نے خوراک کی تقسیم کے لیے ناکافی مراکز قائم کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’’حکام کو زیادہ تعداد میں تقسیم کے مراکز قائم کرنے چاہیٔے تھے، اس لیے کہ بے گھر افراد کو اس شدید گرمی میں اپنی باری کا انتظار کرنا مشکل ہوجائے گا۔‘‘
ایک سرکاری ترجمان کے مطابق فوجی کارروائی کے آغاز کے بعد سے اب تک چار لاکھ چار ہزار آٹھ سو انیس افراد شمالی وزیرستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
اسی دوران ایک بااثر سردار حافظ گل بہادر نے شمالی وزیرستان میں ایک قبائلی جرگے کا انعقاد کیا تھا، جہاں انہوں نے اس خطرے کا اعادہ کیا کہ اگر فوجی آپریشن جاری رہتا ہے تو لوگ طالبان کے ساتھ شامل ہونے پر مجبور ہوجائیں گے۔
جرگے کے ایک ترجمان ملک فدا نے اے ایف پی کو بتایا ’’گل بہادر نے کہا کہ وہ اس علاقے میں کارروائی کرنے والی فوج کے خلاف کسی قسم کی جوابی کارروائی نہیں شروع کریں گے، یہاں تک کہ حکومت اس بات پر رضامند ہوجائے کہ اگست کے وسط تک یہ کارروائی روک دی جائے گی اور یہ پناہ گزین اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے۔‘‘
حافظ گل بہادر نے افغانستان پر سوویت قبضے کے دوران سوویت افواج کے خلاف اور 2001ء کے بعد امریکی افواج کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔ تاہم 2006ء میں پاکستانی فوج کے ساتھ انہوں نے ایک امن معاہدے پر دستخط کردیے تھے۔