بے گھر افراد حکومتی بے حسی اور غفلت پر برہم

اپ ڈیٹ 27 جون 2014
شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے قبائلی شہری، بنوں میں عالمی ادارۂ خوراک کے غذائی اشیاء کی تقسیم کے مرکز سے امدادی سامان وصول کرکے ٹرالی پر لے جارہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے قبائلی شہری، بنوں میں عالمی ادارۂ خوراک کے غذائی اشیاء کی تقسیم کے مرکز سے امدادی سامان وصول کرکے ٹرالی پر لے جارہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

بنوں: شمالی وزیرستان ایجنسی سے نقلِ مکانی پر مجبور ہونے والے افراد بنوں کے اسپورٹس کمپلیکس کے باہر طویل قطار میں کھڑے تھے، جہاں اقوامِ متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) نے غذائی اشیاء کی تقسیم کے لیے ایک کیمپ قائم کیا تھا۔

وہ اس شدید گرمی میں غذائی اشیاء حاصل کرنے کے لیے اپنی باری کا صبح سے انتظار کررہے تھے۔

سروں کو رومال سے ڈھانپے اور اپنی بندوقوں کو کندھے پر لٹکائے، فوج کے سپاہی نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے کبھی کبھار چھڑی کو زمین پر مارتے جاتے تھے۔ مرکزی شاہراہ کےقریب اس ماحول کو ہوا کے ساتھ آنے والی بدبو نے آلودہ کررکھا تھا۔

ہزاروں افراد جو لکی مروت، کرک ڈسٹرکٹ اور بنوں کے مختلف علاقوں سے یہاں آئے تھے، اس کمپلیکس کے باہر جمع تھے۔ پولیس نے علی الصبح امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ہوائی فائرنگ اور لاٹھی چارج کا سہارا لیا۔

نورالامین جن کے ماتھے سے پسینہ بہہ رہا تھا، اور ایک بزرگ احمد زئی وزیر بھی غذائی اشیاء حاصل کرنے کا انتظار کررہے تھے۔

شمالی وزیرستان سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے قبائلی افراد کی گاڑیوں کی طویل قطار سیدگئی میں قائم کیے گئے بنوں فرنٹیئر  ریجن رجسٹریشن سینٹر کی چوکی کو عبور کرنے کی منتظر ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
شمالی وزیرستان سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے قبائلی افراد کی گاڑیوں کی طویل قطار سیدگئی میں قائم کیے گئے بنوں فرنٹیئر ریجن رجسٹریشن سینٹر کی چوکی کو عبور کرنے کی منتظر ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

ان کے خاندان نے بنوں کے جنوب میں 18 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ضلع لکی مروت کے ایک قصبے سرائے نورنگ میں اپنے ایک عزیز کے گھر میں پناہ لی ہوئی ہے۔

وہ اس کمپلیکس پر غذائی اشیاء حاصل کرنے کے لیے تین دن سے آرہے تھے۔ انہوں نے پولیس اور فوجی سپاہیوں کے ہاتھوں اپنی بدسلوکی کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہرایا، جس کی وجہ سے انہیں اپنے علاقے سے بے دخلی پر مجبور ہونا پڑا۔

انہوں نے کہا ’’خدا کی قسم، میں یومِ حشر کو نواز شریف (وزیراعظم) اور راحیل شریف (آرمی چیف) کا گریبان پکڑوں گا۔ سب سے پہلے تو ہمیں اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، پھر ہمیں غذائی اشیاء کی قلیل مقدار کے لیے ذلیل ہونا پڑ رہا ہے۔ ہم ایسا سلوک تو جانوروں کے ساتھ بھی نہیں کرتے ہیں۔‘‘

فاٹا ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق، چھتیس ہزار آٹھ سو خاندانوں کے لیے وہاں صرف ایک غذائی اشیاء کی تقسیم کا صرف ایک ہی مرکز ہے۔

غذائی اشیاء کی تقسیم کا عمل انتہائی سست ہے۔ لوگ علی الصبح یہاں آجاتے ہیں، اور قطار میں سارا دن کھڑے رہتے ہیں۔

بے گھر ہونے والے قبائلی افراد بنوں فرنٹیر رجسٹریشن سینٹر پر اپنی شناخت کی تصدیق کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
بے گھر ہونے والے قبائلی افراد بنوں فرنٹیر رجسٹریشن سینٹر پر اپنی شناخت کی تصدیق کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

ہر خاندان کو فراہم کی جانے والی خوراک کی ٹوکری میں 80 کلو گندم کا آٹا، چار کلو دالیں، توانائی بخش بسکٹس کے تیس پیکٹس، ایک کلو نمک اور پانچ لیٹر پکانے کا تیل شامل ہوتے ہیں۔

عالمی ادارۂ خوراک کا کہنا ہے کہ بائیس جون سے غذائی اشیاء کی تقسیم کا کام شروع ہوا ہے، اب تک چار ہزار چھ سو سے زیادہ خاندانوں کو پندرہ دنوں کا راشن فراہم کیا گیا ہے۔ گزشتہ آفات کی طرح خوراک کی تقسیم سمیت تمام سرگرمیوں کی نگرانی کا کام فوج کررہی ہے۔

ایک اہلکار نے کہا کہ اوسطاً اٹھارہ سو خاندان اشیائے ضرورت روزانہ حاصل کررہے ہیں۔ خوراک کی تقسیم کے تین مزید مراکز کی تجویز پیش کی گئی ہے، جنہیں اس امدادی آپریشن کو منظم کرنے کے لیے اگلے مہینے تک قائم کردیا جائے گا۔

شمالی وزیرستان ایجنسی میں فوجی آپریشن طویل عرصے سے متوقع تھا، لیکن جس طرح لوگوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور ہونا پرا اور خوراک کی تقسیم کے مراکز پر بد انتظامی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ڈیزاسٹر مینجمنت اتھارٹی کے درمیان روابط کا فقدان ہے۔

غذائی اشیاء کی تقسیم میں بدانتظامی کے خلاف بے گھر ہونے والے قبائلی افراد کوہاٹ بنوں روڈ پر احتجاج کررہے ہیں۔ —. فوٹو آئی این پی
غذائی اشیاء کی تقسیم میں بدانتظامی کے خلاف بے گھر ہونے والے قبائلی افراد کوہاٹ بنوں روڈ پر احتجاج کررہے ہیں۔ —. فوٹو آئی این پی

اس کے علاوہ یہ بھی اس سے یہ بھی انکشاف ہوا کہ اس متوقع آفت سے نمٹنے کے لیے اداروں نے تیاری بھی کی تھی۔

ماضی کی طرح ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ادارے سیکورٹی فورسز اور فوج پر انحصار کررہے ہیں، جو شہریوں کی نقلِ مکانی سے لے کر امدادی اشیاء کی تقسیم تک سب کچھ کنٹرول کررہے ہیں۔

ڈیزاسٹر مینجمنٹ اداروں کے حکام نے خود کو کاغذی کارروائی تک محدود کر رکھا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی ایجنسی کی شراکت دار این جی اوز کے کارکنان غذائی اشیاء کی تقسیم میں شریک ہیں۔

جماعت الدعوۃ کے ایک ذیلی ادارے فلاحِ انسانیت اور جماعتِ اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے غذائی اشیاء کی تقسیم کے مرکز پر لوگوں کو پانی پلایا جارہا ہے۔ انہوں نے ایمبولنسیں بھی کھڑی کر رکھی ہیں، اور چندے جمع کرنے کے لیے کیمپس بھی لگا رکھے ہیں۔

جمیعت علمائے اسلام کے کارکنوں نے بھی اسپورٹس کمپلیکس کے قریب چندہ جمع کرنے کے لیے ایک چھوٹا سا کیمپ لگا رکھا ہے۔

مسلم لیگ نون نے شہر کے کنٹونمنٹ کے علاقے میں فوج کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے بینرز لگائے ہوئے ہیں۔

بنوں میں غذائی اشیاء کی تقسیم کے مرکز پر شمالی وزیرستان سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے قبائلیوں کی طویل قطار۔ —. فوٹو رائٹرز
بنوں میں غذائی اشیاء کی تقسیم کے مرکز پر شمالی وزیرستان سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے قبائلیوں کی طویل قطار۔ —. فوٹو رائٹرز

ایک بینر پر جنرل راحیل شریف کی تصویر کے نیچے وزیراعظم نواز شریف اور خیبرپختونخوا کے گورنر مہتاب احمد خان کی چھوٹی تصاویر کے ساتھ تحریر ہے ’’ہم پاک فوج کو سلام پیش کرتے ہیں۔‘‘

بنوں پہنچنے کے بعد بے گھر ہونے والے خاندانوں نے ملک کے دیگر علاقوں کی جانب بڑھنا شروع کردیا ہے۔ اس رجحان نے سیکیورٹی سے متعلق معاملات سے نمٹنے والے حکام کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ اب تک چار لاکھ پچاس ہزار افراد کا اندراج کیا گیا ہے، اور اگر شمالی وزیرستان کے علاقوں سے یہ انخلاء نہ روکا گیا تو یہ تعداد چھ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ابھی صرف میر علی اور میرانشاہ کے سب ڈویژنوں سے یہ انخلاء مکمل ہوا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ رزمک کا سب ڈویژن جو شام، دوسالی، رزمک، مڈاخیل اور سپن وام اور شوا کے حصوں پر مشتمل ہے، اب تک خالی نہیں ہوا ہے۔

اس لیے کہ فوجی آپریشن میر علی اور میرانشاہ پر مرکوز ہے ، جہاں سے لوگوں نے علاقے کو خالی کردیا ہے۔

واضح رہے کہ مڈاخیل کا علاقہ افغان سرحد سے ملحق ہے، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس علاقے پر حافظ گل بہادر کا اثر ورسوخ قائم ہے، جو شمالی وزیرستان ایجنسی کی مجاہدین شوریٰ کے امیر ہیں، اور انہوں نے 2006ء میں حکومت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں۔

مڈاخیل اور دیگر علاقوں سے انخلاء کا عمل نہ ہونے سے بے گھر افراد کے دلوں میں یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ وہ جلد اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں