جب مسلم لیگ نون نے 2013ء کے انتخابات کے بعد ایک واضح اکثریت کے ساتھ ملکی اقتدار کی باگ ڈور تیسر ی مرتبہ سنبھالی تو ہر ایک سیاسی استحکام کے ایک دور کی شروعات کی توقع کررہا تھا۔

تاہم آج جو کچھ لوگ دیکھ رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ حکومت کی حکومت کی زندگی کو خطرات لاحق ہورہے ہیں اس لیے کہ اس کے مخالفین ایک دوسرے سے ہاتھ ملارہے ہیں اور حکومت کو گرانے کے لیے اسٹریٹ پاور کو استعمال کررہے ہیں۔

یہ خوف اس لیے معقول محسوس نہیں ہوتا کہ پیپلزپارٹی اور مرکزی دھارے کی دیگر سیاسی جماعتوں نے واضح الفاظ میں یہ اعلان کیا ہے کہ وہ موجودہ جمہوری نظام کو پٹری سے اُتارنے کے لیے شروع کی جانے والی کسی تحریک کا حصہ نہیں بنیں گی۔

یہ درست ہے کہ خودساختہ شیخ الاسلام اور مصلح ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان واپس آگئے ہیں اور ماحول میں تلاطم پیدا کردیا ہے، ان لہروں پر سوار ہو کر گجرات کے چوہدری اپنی سیاسی خوش بختی کو بحال کرنا چاہتے ہیں، اور عمران خان کی پی ٹی آئی پچھلے سال کے انتخابات میں چار انتخابی حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی اور الیکشن کمیشن میں اصلاحات کے لیے دباؤ میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔

لیکن اس سب کا مطلب یہ ہوگا کہ تنہا لڑنے والے راولپنڈی کے شیخ رشید احمد کی پیش گوئی، مسلم لیگ نون کی حکمرانی اگلی عیدالاضحٰی سے پہلے ختم ہوجائے گی، سچ ہونے جارہی ہے؟ ایسا کوئی امکان نہیں ہے۔

تاحال ان کا اجتماعی مطالبہ یہ ہے کہ سترہ جون کو لاہور میں ڈاکٹر قادری کی پاکستان عوامی تحریک کے بارہ کارکنوں کی ہلاکت پر وزیرِ اعلٰی پنجاب استعفٰے دے دیں، مسلم لیگ کی اعلٰی سطحی قیادت کو اس بات پر فکرمند ہونا چاہیٔے کہ یہ خونی سیاست کے خلاف مقبول جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔

قومی اسمبلی میں 190 اراکین کے ساتھ مسلم لیگ کو وفاقی سطح پر ایوان کے اندر تبدیلی کے خطرے کا سامنا نہیں ہے، لیکن لوگ سڑکوں پر سیاسی مخالفین پر فائرنگ کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ کے رہنماؤں کو یہ سب حکمران جماعت کے خلاف بطور ایک سازش اور اس کے لیے مخالفین کے کیمپوں میں جوڑ توڑ دکھائی دیتا ہے۔

ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ خود وزیراعظم نواز شریف اس طرح کی قیاس آرائیوں کو ہوا دے رہے ہیں، انہوں نے حالیہ دنوں میں کئی مواقع پر یہ کہا ہے کہ ’’اگر میری حکومت کو پانچ سال پورےکرنے کی اجازت دی گئی تو ہم اس ملک کا چہرہ تبدیل کردیں گے۔‘‘

ڈاکٹر قادری جنہیں خطرہ سمجھا جارہا ہے، محدود حلقہ رکھتے ہیں۔ ان کی بنیاد منہاج القرآن کے اسکولوں اور کالجوں کے طلباء و طالبات، ان کے والدین اور عزیز رشتہ دار ہیں۔

وہ بطور مذہبی اسکالر اپنی قوت کا اظہار کرتے ہوئے ایک متاثر کن جلسے کا انعقاد کرسکتے ہیں، لیکن وہ ایسا کوئی انقلاب نہیں لاسکتے، جیسا کہ وہ موجودہ سیاسی و اقتصادی نظام کو بہا کر لے جانا چاہتے ہیں۔

درحقیقت یہ مقصد ناقابل حصول ہوگا، یہاں تک کہ اگر عمران خان ان کے ساتھ شریک ہوجائیں۔

موجودہ صورتحال میں یہ سب سے زیادہ اچھی بات یہ ہے کہ یہ دونوں مل کر مظلوموں کے لیے اور انتخابی اصلاحات کے لیے کوشش کرسکتے ہیں۔

مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی نے شاید اپنے سیاسی طاق میں زندگی گزاری ہے۔ وہ ایک حکومت مخالف اتحاد کا حصہ بننے میں اپنے لیے بقا کا موقع دیکھ رہے ہیں، اور اس کے لیے کام کررہے ہیں۔ ایک بار پھر اس طرح کے اتحاد کی کامیابی کے لیے عمران خان کی ضرورت ہوگی، اس لیے کہ ان کی پاکستان تحریک انصاف تنہا لوگوں کو سڑکوں پر لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

پاکستان عوامی لیگ کے شیخ رشید ایک اچھے چیئر لیڈر بن سکتے ہیں۔ لیکن جب ٹیم کھیل سے باہر ہوجائے تو وہ کس کے لیے واہ واہ کریں گے۔ درحقیقت ان کی حیثیت یہی ہے کہ انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنی سیٹ پی ٹی آئی کو دی ہے، جس کے اس نے 2013ء کے عام انتخابات میں ان کی حمایت کی تھی۔

لہٰذا مستقلِ قریب میں ایک حکومت مخالف تحریک پی ٹی آئی کے استحکام کے لیے ضروری ہے۔

اگرچہ پی ٹی آئی کی قیادت نے متعدد بار اس طرح کی رپورٹوں کو مسترد کیا ہے کہ وہ وسط مدتی انتخابات پر نظریں جمائے بیٹھی ہے، مسلم لیگ نون چار انتخابی حلقوں میں ووٹر کے انگوٹھوں کے نشان کی بنیاد پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے پریشان ہےاور اس معاملے کو اسی طرف جاتا دیکھتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نون یہ دلیل دیتی ہے کہ چاروں انتخابی حلقوں کی قسمت کا فیصلہ انتخابی ٹریبیونلز یا الیکشن کمیشن کو کرنا ہے۔

پی ٹی آئی کے ایک رکن قومی اسمبلی جو اپنی پارٹی کے سربراہ سے قریب ہیں، کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے مستقبل کے ردّعمل حکومت کے جواب پر انحصار کرتا ہے، جو ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے حوالے سے وہ دے گی۔

انہوں نے ڈان کو رازدارانہ طور پر بتایا کہ ’’میں نے قومی اسمبلی میں مسلم لیگ نون کے اراکین ساتھیوں سے بات کی ہے کہ اس مسئلے کو جس قدر جلد ممکن ہو حل کرلیں۔ اس سے ملک میں سیاسی درجۂ حرارت کو نیچے لانے میں مدد ملے گی۔‘‘

تاہم مسلم لیگ کو یہ خوف ہے کہ دوبارہ گنتی کے لیے پی ٹی آئی کے مطالبے پر عملدرآمد سے 2013ء کے عام انتخابات پر ایک بڑا سوالیہ نشان بن جائے گا اور پھر یہ پارٹی بعد میں جلد انتخابات کا مطالبہ کرے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں