حقیقی متاثرین

اپ ڈیٹ 28 جون 2014
پاکستان کا غریب دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے، یہ وہ حقیقت ہے جو اکثر میڈیا کے شور شرابے میں گم ہو جاتی ہے-
پاکستان کا غریب دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے، یہ وہ حقیقت ہے جو اکثر میڈیا کے شور شرابے میں گم ہو جاتی ہے-

وزیرستان میں فوجی حملوں کی شدت میں اضافے کے ساتھ ساتھ، آئی ڈی پیز کی لہر میں بھی تیزی آ گئی ہے اور اندازوں کے مطابق تین لاکھ افراد قبائلی ایجنسی چھوڑ چکے ہیں- پچھلے تمام موقعوں کی طرح، اس بار بھی ان کے استقبال کے حوالے سے ریاستی تیاریاں نہ ہونے کے برابر ہیں-

اکثر کراس فائرنگ کا نشانہ بننے اور اپنے گھر بار چھوڑ کر آنے والے یہ آئی ڈی پیز صحیح معنوں ہمدردی جگاتے ہیں اور ان کی حالت زار اکثر عسکریت پسندوں کے خلاف ملٹری ایکشن کی حمایت میں دراڑیں بھی ڈال دیتی ہے- اس تاثر کو تقویت اس لئے بھی ملتی ہے کیونکہ میڈیا ان کی غربت، ان کی حالت زار کچھ اس انداز سے دکھاتا ہے کہ یہ افلاس زدہ، بھوکے، ننگے، تھکے ماندے، پولیو سے متاثرہ افراد ہیں جو گاڑیوں کی چوٹوک پر اپنے مال اسباب، کمبل، کپڑے لادے اپنے پیچھے جانوروں کے ریوڑ لے کر آنے والے لوگ ہیں-

تاہم، اس موقع پر یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ جو آئی ڈی پیز خیبر پختونخواہ میں نظر آ رہے ہیں، اصل میں تو یہ وہ خوش قسمت ہیں جنہوں نے کچھ وسائل اپنے اور اپنی فیملیز کیلئے بچا کر رکھے تھے- نیوز رپورٹس کے مطابق، ویگنوں کے کرائے 35,000 سے بھی بڑھ گئے ہیں اور بنوں اور کے پی کے دوسرے علاقوں میں گھروں کے کرائے بھی بڑھ چکے ہیں اور مزید بڑھ رہے ہیں- ہم بس اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ اب بھی لاکھوں افراد جو شمالی وزیرستان چھوڑنا چاہتے ہیں محض اس وجہ سے ایسا نہیں کر پا رہے کہ ان کے پاس اس کے لئے وسائل میسر نہیں-

غریب دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے-

یہ ہمارے لئے اس بات کی تازہ ترین یاد دہانی ہے کہ پاکستان کا غریب دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے اور یہ وہ حقیقت ہے جو اکثر میڈیا کے شور شرابے میں گم ہو جاتی ہے اور آپ کو انگریزی بولنے والے 'لبرل فاشسٹ' اور عمران خان کی طرح کی اشرافیہ دہشت گردی سے متاثر معلوم ہوتی ہے- ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ صرف ان ہی کی آوازیں، عسکریت پسندی کے قومی مباحثے میں شامل ہونے میں کامیاب ہو پاتی ہیں-

پر غریب تو ہر جانب سے بس جھیلتا ہی آ رہا ہے- ان کے پاس اپنے بچاؤ کے لئے کچھ ہوتا نہیں لہٰذا وہی سب کے لئے آسان ترین شکار ہوتے ہیں- حالیہ برسوں میں عسکریت پسندوں کی جانب سے زیادہ تر حملے بازاروں، مسجدوں، عبادت گاہوں، کھلے میدانوں میں بنے والی بال کورٹس، بچیوں کے اسکولوں، سرکاری اسپتالوں اور ایسی ہی دیگر جگہوں پر کئے گئے ہیں- یہ جگہیں اشرافیہ کے لئے بنائی گئی قلعہ نما پناہ گاہیں نہیں، ویسے اب تو وہ بھی اتنی زیادہ محفوظ نہیں رہ گئیں- پھر بھی، ہمارے سیاسی اشرافیہ، سینئر پولیس افسروں، فوج کے اعلی حکام اور دہشت گردی کی مذمت کرنے والی عوامی شخصیات – جس کی تازہ ترین مثال ڈاکٹر طاہر القادری ہیں – میں پایا جانا والا خوف بے جا نہیں اور یہ خوف صحیح بھی ہے- تاہم، ان کی حفاظت پر ساری توجہ مرکوز کر دینے سے یہ حقیقت چھپ سی جاتی ہے کہ غریبوں کے لئے بھی خطرہ، اگر ان سے زیادہ نہیں تب بھی ان ہی کے برابر ضرور موجود ہے-

غریب پر دہشت گردی کے پڑنے والے زیادہ تر اثرات بلا واسطہ ہیں – دہشت گرد حملے کے بعد، ان کی دیہاڑی کا نقصان ہوتا ہے – مختلف مقامات پر سخت چیکنگ اور پولیس کے رویئے کی وجہ سے ان کی نقل حرکت محدود ہو جاتی ہے – ان کے لئے روزگار کے مواقع مزید محدود ہو جاتے ہیں کیونکہ نجی شعبے میں کام کرنے والی پروفیشنل اشرافیہ عسکریت پسندوں کی وجہ سے ملازمت دینے میں زیادہ محتاط ہو جاتی ہے اور خیرات اور صدقات کا بہاؤ حقیقی ضرورتمندوں کے بجائے ان شدت پسند گروپوں کی جانب ہو جاتا ہے جن کے فنڈریزنگ کے طریقے اور نیٹ ورکس زیادہ بہتر ہیں-

اس پر ستم ظریفی یہ کہ دہشت گردوں کے خلاف بولنے والے پاکستان کے بااثر اور امیر طبقے کی سلامتی کا ہرجانہ غریب بھرتا ہے- مثال کے طور پر، اہم سرکاری عمارتوں اور پوش رہائشی علاقوں کی حفاظت کے لئے لگائی جانے والی رکاوٹوں کی وجہ سے سب سے زیادہ ان غریبوں کو سہنی پڑتی ہے جو مختلف ذرائع سے اپنے کام کی جگہوں اور بازاروں کو جا رہے ہوتے ہیں- ان رکاوٹوں کے دوسری جانب رہنے والوں کو خطرہ سمجھا جاتا ہے اور اکثر انہیں اس پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا- بات کو سمجھنے کیلئے ذرا کراچی کے لیاری میں رہنے والوں کے بارے میں سوچئے جنہیں اپنے محلوں میں گینگز کو جھیلنا پڑتا ہے اور دوسری جانب ان کے علاقوں کے باہر رہنے والے انہیں ہی مجرم سمجھتے ہیں- اور جیسا کہ ریسرچر صوبیہ کاکڑ نے نشاندہی کی ہے، ان مثبت مارے لوگوں کا کوئی گروپ اپنے بچاؤ کے لئے بھی اگر کوئی قدم اٹھاتا ہے جیسے علاقے میں بیرئر لگانا یا علاقے کی حفاظت کے لئے رات کو مسلح گشت، تو انہیں فوراً مجرم گردان لیا جاتا ہے حالانکہ وہ وہی کر رہے ہیں جو اشرافیہ کے لئے نجی سیکورٹی ایجنسیاں اپنے گارڈز کی صورت میں کر رہی ہوتی ہیں-

حالیہ اکیڈمک ریسرچ (جیسے کہ بلیئر، فیئر، ملہوترا اور شپیرو کے 2012 کے پیپرز نے پتہ لگایا ہے کہ غریب – خاص طور پر شہروں میں رہنے والا غریب – عسکریت پسندوں کے لئے مڈل کلاس کے مقابلے میں آسان شکار ہے کیونکہ دہشت گردی کے منفی اثرات کا وہ سب سے زیادہ اور آسانی سے شکار ہو جاتا ہے-

اس کے باوجود، پاکستان کے غریبوں کے بارے میں عام تصور یہی ہے کہ یہ بس عسکریت پسند بننے ہی والے ہیں اگر اب تک وہ انتہا نہیں بھی بنے- بجائے اس کے اس بات کو زیادہ سے زیادہ عیاں کیا جائے کہ دہشت گردی کی وجہ سے غربت بڑھ رہی ہے، پاکستان میں ہونے والی بحث میں اس بات پر توجہ دی جا رہی ہے غریب کس آسانی سے نظریاتی طور پر برین واش کیا جا سکتا ہے یا یہ کہ چونکہ ان کے پاس مواقع محدود ہیں لہذا عسکریت پسند گروپ انہیں آسانی سے پھانس لیتے ہیں- آئی ڈی پیز کے بارے میں بھی عام طور پر تصورات کچھ ایسے ہی ہیں-

غربت کے خاتمے کے لئے ترقیاتی رقم اس امید پر مختص کی رہی ہے کہ اس سے دہشت گردی اور انتہا پسندی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی- تاہم شاید اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ عسکریت پسندی کے خلاف تمام پاکستانی اپنی حفاظت کر سکیں یا ان کی حفاظت کی جا سکے، اور زیادہ فنڈنگ اور مزید فنڈنگ کی ضرورت ہے- اس بات کی ضرورت، دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے کئے جانے والے حکومتی اقدامات اور فوج کی کوششوں کے بعد اور زیادہ بڑھ گئی ہے-

اس بات کی بھی فوری اور شدید ضرورت ہے کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے بہتر اربن پلاننگ اور ریگولیشنز بنائے جائیں کہ شہری علاقوں میں یہ میگا پراجیکٹس ایک دوسرے سے کٹ کر نہ رہ جائیں جس سے ایک خاص انکم لیول سے نیچے رہنے والے جرائم کی دلدل میں نہ پھنس جائیں- دہشت گردی کے نتیجے میں زخمی، سکتے میں آ جانے والوں اور نوکریوں سے ہاتھ دھونے والوں کی امداد اور بحالی کے لئے کمیونٹی سطح پر بھی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے- یہ اور ان جیسے دیگر اقدامات کے بغیر دہشت گردی کا ہمارے ملک میں عدم توازن جاری رہنے میں ایک اہم فیکٹر کا رول جاری رہے گا-

انگلش میں پڑھیں


لکھاری ایک فری لانس صحافی ہیں-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

تبصرے (1) بند ہیں

Chaudry Jun 30, 2014 11:05am
i agree with the obervation , but it is Ghareeb , who is doing this . unfortunately. this practice is everywhere in the world , where there is unrest and destruction