تین متوازی دھارے

02 جولائ 2014
ریاستی اداروں کو ابتدا ہی سے جمہوری انداز نظر سے الرجی ہوگئی اور اب اس الرجی نے شاید قانونِ فطرت کی حثیت حاصل کر لی ہے-
ریاستی اداروں کو ابتدا ہی سے جمہوری انداز نظر سے الرجی ہوگئی اور اب اس الرجی نے شاید قانونِ فطرت کی حثیت حاصل کر لی ہے-
یہ دیکھنا بھی باقی ہے کہ جو سماج اور ریاست علاقائی تعاون اور تہذیب کے سنگ چلنے کے گُر بُھول جائیں انکا انجام کیا ہوتا ہے؟
یہ دیکھنا بھی باقی ہے کہ جو سماج اور ریاست علاقائی تعاون اور تہذیب کے سنگ چلنے کے گُر بُھول جائیں انکا انجام کیا ہوتا ہے؟

تاریخ اور فطرت کے قوانین بہت دلچسپ ہوتے ہیں- تضاد، تغیر اور تنوع سے ہم کراہت محسوس کریں یا لطف اٹھائیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ تینوں موجود رہے، رہتے ہیں اور رہیں گے۔

بات تب بگڑتی ہے جب یہ تینوں آپس میں ٹکراجاتے ہیں- پھر دھوئیں کے مرغولے اڑتے ہیں، اگ کی چنگاریاں بھڑکتی ہیں اور بارود کی بو پھیلتی ہے- پھر تتلیوں کے پر جل جاتے ہیں, نغموں کے ترنم کا دم گھٹتا ہے اور مسرت کی لہریں اندھے غاروں میں گم ہوجاتی ہیں۔

لیکن جن تین متوازی دھاروں پر آج بات کرنے کا ارادہ ہے وہ تضاد، تغیر اور تنوع نہیں بلکہ تضاد، تغیر اور تنوع کے فریم ورک میں ریاست، فوج اور عوام کی سہ جہت لہریں ہیں-

شاید دنیا کے باقی حصوں یا مختلف اور ریاستوں میں بھی اختیار اور بے اختیاری کے عنوان سے لکھی جانے والی کہانی کا پلاٹ انہی دھاروں سے بُنا جاتا ہو مگر مملکتِ خداداد میں تو یہ ایک معلوم حقیقت ہے۔

ان تین دھاروں پر بات کرتے ہوئے جو پہلا تنازعہ اُٹھتا ہے وہ ان دھاروں کی ترجیح یا اولیت ہے- کونسا دھارا علت ہے اور کونسا معلول؟ کونسا وجہ ہے اور کونسا سبب؟ کون کس کے لیے ہے اور کس کا جواز کس کے لیے ہے؟

جب ان سوالات کو منطقی اور عقلی بنیادوں پر وضاحت کے ساتھ حل نہیں کیا جاتا تو اُلجھاو پیدا ہونا ایک قدرتی امر ہے۔

اصولی طور پر تو شاید اکثریت اس ادعا کو تسلیم کرتی ہے کہ اولیت عوام کو حاصل ہے۔ مگر جب ہم اس دعوے کا معروضی تجزیہ کرتے ہیں تو نتیجہ کچھ اور سامنے آتا ہے- معض زرا سی توجہ سے اگر عوام کے اس دھارے کا تجزیہ کریں تو تین طرح کی ضروریات یا تقاضے سامنے آجاتے ہیں-

پہلا تقاضا بحثیتِ انسان جبلی ضروریات کا ہے- ہم سب جانتے ہیں کے جبلی ضروریات میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو بحثیت نوع انسان ضروری ہوتی ہیں۔ مثلا خوراک، پانی، ہوا، رہنے کی جگہ، خطرات سے بچنے کے لوازمات، تفریح، اپنی مرضی سے نوع بڑھانے کا پر لطیف انتظام اور موسم کی سختیوں سے بچنے کے لیے اوزار و آلات-

جبلی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ روزگار، صحت، مکان، بجلی، گیس، زراعت، صنعت و حرفت، تجارت، ایجاد، تعلیم اور تحفظ اولیت اختیار کر لیتے ہیں- مگر سوال یہ ہے کہ کیا مملکتِ خداداد میں صورتحال اسکے مطابق ہے یا اس کے عین بر عکس؟

عوام کی اولیت کا دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس ثقافت اور سماج میں عوام رہتے ہیں کیا وہ ایک فرد کے احساس، جمالیات اور سماج میں اس کی عزتِ نفس کے تقاضے پورے کرتا ہے؟

کیا فرد دھرتی کی ہزاروں سالوں کی تاریخ کے تسلسل کے ساتھ جڑ کر جدید تہذیب کی پیدا کردہ سہولیات سے قائدہ اٹھا سکتا ہے؟ کیا فرد جس عقیدے کو اپنے لیے بہتر سمجھتا ہے اس پر قائم رہ سکتا ہے؟ کیا وہ موسقی اور رقص سے متمتع ہو سکتا ہے؟ کیا فرد اپنی ہی زبان میں سوچی ہوئی حقیقتوں کا برملا اظہار کر سکتا ہے؟ کیا فرد فنون لطیفہ میں تخلیقیت کی نئی شکلیں پیدا کر سکتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو عوامی اولیت کا دعوی درست ہے ورنہ بقول غالب محض؛

~ دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔


عوامی اولیت کے دعوے کا تیسرا ثبوت سیاسی اختیار ہے۔

کیا فرد عمومی ملکی معاملات کی فیصلہ سازی میں ممکنہ حد تک شریک ہے؟ کیا وہ کسی سیاسی نظرئے پر کاربند رہ سکتا ہے؟

کیا فرد اس میں آزاد ہے کہ کسی سیاسی تحریک کا حصہ بنے اور اپنی پسند کے سیاسی نظام کو کھڑا کرنے کے لیے پر امن جدوجہد کر سکے؟

کیا فرد اپنی محنت، ایمانداری اور انتھک محنت کے زریعے کسی سیاسی جماعت کی قیادت پر فائز ہوسکتا ہے؟

اگر ایسا ہے تو عوامی اولیت کا دعوی درست ہے لیکن اگر وہ مسلسل خوف کی ازیت سے گزرے اور مفاد یافتہ طبقوں کے بنائے ہوئے اصولوں پر چلنے پر مجبور ہو تو پھر شاید عوام کی اولیت کے دعوے پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔


تین متوازی دھاروں پر بحث کرتے ہوئے جب ہم ریاستی دھارے تک پہنچتے ہیں تو تین بد نما حقیقتیں ہمارے سامنے آتی ہیں؛

پہلی حقیقت یہ کہ کیا ریاستی اداروں کا عمومی مزاج اشرافیت پر مبنی ہے یا عوامیت پر- اگر عوامیت پر مبنی ہے تو اس کا ثبوت یہ ہوگا کہ عام لوگوں اور خواص کی لیے ایک جیسے قوانین اور ان قوانین کا یکساں نفاز ہوگا- کیا مملکتِ خداداد میں صورتحال ایسی ہے؟

ریاست کے متوای دھارے پر بات کرتے ہوئے ہمارے سامنے جو دوسری حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ کیا ریاستی اداروں کے انتظامی، اقتصادی اور قانون نافز کرنے والے ادارے عمومی طور پر جمہوری مزاج رکھتے ہیں یا آمرانہ مزاج؟

مملکتِ خداداد کی مثال سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی یہ نتجہ اخذ کر سکتا ہے کہ ریاستی اداروں کو شاید ابتدا ہی سے جمہوری انداز نظر سے الرجی ہوگئی ہے اور اس الرجی نے اب شاید قانونِ فطرت کی حثیت حاصل کر لی ہے- ایسا لگتا ہے کہ ریاستی اداروں میں جمہوریت کے برعکس آمریت کے خصائل کُوٹ کُوٹ بھرچکے ہیں۔

ریاست کے ضمن میں جو تیسری حقیقت سامنے آتی ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ کیا ریاستی ادارے عقلیت کی بنیاد پر اپنی کارکردگی میں ارتقائی مرحلے طے کر رہے ہیں یا جزباتیت کا سہل انگیز نسخہ استعمال کر کے زمہ داری سے بھاگنے کا وطیرہ اپنائے ہوئے ہیں۔

اب تک یہ سہل نسخہ ریاستی اداروں کے بہت کام آیا ہے، اداروں پر کسی بھی تنقید کو بیرونی قوتوں کی سازش قرار دے کر بڑی اسانی سے راہِ فرار اختیار کرنا معمول بن چکا ہے۔

ریاست کی اشرافیت، آمریت اور جزباتیت تاریخی طور پر اسے عوام کے متوازی دھارے پر ڈال دیتے ہیں- اس متوازی دھارے کے کالے لمبے سائے اب تک اتنے بڑھ گَئے ہیں کہ خود ریاست کے وجود پر کالے بادلوں کی طرح چھاگئے ہیں۔ متوازی دھاروں کا تیسرا دھارا حساس بھی ہے اور اہم بھی- قومی ریاستوں کا آئینی ڈھانچہ اس اصول کا متقاضی ہے کے مسلح افواج منتخب حکومتوں اور آئین کے اندر رہ کر دفاع کے فرائض سر انجام دیں-

منتخب پارلمان جو اصولی طور پر عوام کی مشترکہ رائے کی مظہر ہوتی ہے اور منتخب حکومت جو اصولی طور پر عوامی خود حکمرانی کا ثبوت ہوتی ہے، جو بھی فیصلے کرتی ہے مسلح افواج اور انٹیلجنس ادارے اُن پر کاربند ہوتے ہیں- اگر ایسا نہیں تو مسلح افواج ریاست اور عوام دونوں کا متوازی دھارا بن جاتی ہیں اور اصولی طور پر اپنے وجود کا جواز کھو کر متوازی ریاست بن جاتی ہیں۔

ان تین متوازی دھاروں کے محرکات اور عوامل کا تجزیہ کر کے کوئی بھی اس نتیجے تک پہنچ سکتا ہے کہ عوامی اختیار اور عوام کی ضروریات کا یہ دھارا دوسرے دونوں دھاروں سے بہت پیچھے ہے اور دوسرے دونوں دھارے کھبی بھی عوامی دھارے کو کاٹ کر نکل سکتے ہیں۔

یہ صورتحال اگر برقرار رہی تو ایک طرف عوام کی سختیوں اور زلتوں کے انبار میں اضافہ ہوتا رہے گا اور دوسری طرف مملکتِ خداداد میں ریاستی اداروں اور قومی اداروں کی تعمیرِ نو کا عمل مسلسل پسپا ہوتا رہے گا۔

یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ جو ریاست عوام کے متنوع تشخیص اور گوناگوں ضروریات کے لوازمات پوری نہ کر سکے فطرت اور تاریخ کے قوانین اُسکے ساتھ کیا برتاو کرتے ہیں؟ یہ دیکھنا بھی باقی ہے کہ جو سماج اور ریاست علاقائی تعاون اور تہذیب کے سنگ چلنے کے گُر بُھول جائیں انکا انجام کیا ہوتا ہے؟

ظفر اقبال نے کیا خوب کہا؛

خموش ہوگیا یوں کوئی بات کرتے ہوئے

ہوا اسے کچھ نہ کہے جیسے گل بکھرتے ہوئے

میں زینہ زینہ جسے لے گیا بلندی پر

وہ مرے ساتھ نہ تھا سیڑھیاں اُترتے ہوئے

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں