اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کل بروز بدھ کو کراچی میں زمین کے ایک بڑے حصے کے استعمال کے پس پردہ راز سے پردہ اُٹھانے کی کوشش کی، جسے انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) اور پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) الاٹ کیا گیا ہے۔

جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ ججز پر ایک بینچ نے یہ حقیقت جاننے کی کوشش کی کہ آخر اس زمین کو حاصل کرنے کی کوشش کیوں کی گئی تھی۔

کیا وہ آئی ایس آئی اور پی اے ایف کے ملازمین کے لیے رہائشی سہولت کے لیے اس کا استعمال کرنا چاہتے تھے؟

کیا اس کو اسٹریٹیجک مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جائے گا؟

یا پھر ان سب سے بالکل ہی مختلف کوئی مقصد تھا؟

سندھ بورڈ آف ریونیو کے لینڈ یوٹیلائزیشن ڈیپارٹمنٹ نے اس زمین کی مبینہ منتقلی پر کوئی اعتراض نہیں تھا، اگر اس کو فوجیوں کی رہائش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

تاہم اس ڈیپارٹمنٹ کے نمائندوں نے عدالت کے باہر میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ انہیں خوف ہے کہ یہ زمین ایک کارپوریٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کی تعمیر کے لیے استعمال کی جائے گی، جس کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ یہ ایک نجی اسکیم ہے اور ریاست کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ معاملہ دس ایکڑ کی زمین کی الاٹمنٹ کے معاہدے سے متعلق تھا، جس پر آئی ایس آئی کے ملازمین کے لیے رہائشی سہولت کی تعمیر کی جانی تھی، اس کے ساتھ ساتھ تین سو پچاس ایکڑ پاکستان ایئر فورس کے لیے مختص کی گئی زمین سے متعلق بھی تھا۔

زمین کی الاٹمنٹ کے لیے سمری کی سندھ کے وزیرِ اعلٰی نے منظوری دی تھی، لیکن سندھ بورڈ آف ریونیو کے لینڈ یوٹیلائزیشن ڈیپارٹمنٹ نے 28 نومبر 2013ء کو دیے گئے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں اس الاٹمنٹ کو روک دیا تھا، یہ فیصلہ کراچی میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے دیا گیا تھا۔

یہ حکم سندھ کے ریونیو ڈیپارٹمنٹ کو کسی بھی سرکاری اراضی کی منتقلی، الاٹمنٹ یا تبادلے سے روکنے کی ایک کوشش تھی۔

اس کے نتیجے میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کی طرف سے ایک درخواست سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی گئی تھی، جس میں گزاش کی گئی تھی کہ سپریم کورٹ سندھ بورڈ آف ریونیو کو زمین کی الاٹمنٹ کا حکم جاری کرے۔ اس درخواست میں عدالت سے گزارش کی گئی تھی کہ یہ زمین ادارے کے ملازمین کو رہائش کی سہولت دینے کے لیے حاصل کی جارہی ہے، جنہیں رہائش کی سہولت کی کمی کا سامنا ہے۔

یہ درخواست سپریم کورٹ کے ایک دوسرے بینچ کے سامنے پیش کی گئی، جس پر 28 نومبر 2013ء کو دیے گئے حکم سے پیدا ہونے والی صورتحال واضح کی گئی۔اس بینچ پر واضح کیا گیا کہ پابندی کے اس حکم کا اطلاق صرف سرکاری اراضی پر ہوگا، جہاں تک ریاستی ملکیت کے طور پر استعمال کا تعلق ہے جسے ریاست خود اپنے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے تو پھر اس کے لیے ریونیو ڈیپارٹمنٹ اس زمین کی منتقلی کے لیے آزاد ہوگا۔

پھر بھی اعلٰی عدالت کے فیصلے سے مطمئن نہ ہوتے ہوئے آئی ایس آئی نے 28 نومبر 2013ء کو دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی ایک درخواست دائر کردی۔

جب یہ مقدمہ بدھ کے روز پیش کیا گیا تو جسٹس سعید کھوسہ نے کہا کہ ریونیو بورڈ نے یہ سوچ کر کے اس زمین کو حاصل کرنے کا مقصد اس سے مختلف ہے جو وجوہات بیان کی گئی تھیں، اور زمین کی متنقلی کے سلسلے میں وہ عدالت کا کندھا استعمال کرنا چاہتا ہے، حالانکہ عدالت کی ہدایات میں سرکاری اراضی کے ریاستی استعمال کی اجازت دی گئی تھی۔

جج نے کہا کہ یہ عدالت کسی کو اس کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔

ریونیو بورڈ کے وکیل احمد پیرزادہ نے جواب دیا کہ ان کے مؤکل کو رہائشی سہولیات کی تعمیر کے لیے یا پھر اسٹریٹیجک مقاصد کے لیے سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں زمین کی الاٹمنٹ میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں تھی۔

جسٹس ناصر الملک نے ریونیو بورڈ کے وکیل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’اپنا فیصلہ کیجیے، اس لیے کہ یہ آپ کا فیصلہ ہوگا۔‘‘

جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ ریونیو بورڈ اس چیز کی روک تھام کی کوشش کیوں کررہا ہے، جو ریکارڈ پر نہیں ہے۔

اس کے علاوہ فاضل جج نے آئی ایس آئی اور پی اے ایف کے وکیل کو مشورہ دیا کہ انہیں چاہیٔے کہ وہ توہین عدالت کا ایک مقدمہ بورڈ آف ریونیو کے خلاف دائر کریں، جو عدالت کے حکم کی تعمیل سے گریز کررہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں