خیبرپختونخوا: اس سال ٹارگٹ کلنگ میں 30 فیصد اضافہ

اپ ڈیٹ 04 جولائ 2014
پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ سخت حفاظتی اقدامات کی وجہ سے صوبے میں جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
پولیس حکام کا دعویٰ ہے کہ سخت حفاظتی اقدامات کی وجہ سے صوبے میں جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

پشاور: پولیس کی جانب سے جمع کیے جانے والے اعدادوشمار کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اس سال کے دوران 30.3 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ موجودہ سال کے دوران ٹارگٹ کلنگ کے 129 کیسز ریکارڈ کیے گئے، جبکہ اس کے مقابلے میں پچھلے سال ان واقعات کی تعداد 99 تھی۔

اسی طرح راکٹ حملوں میں بھی 450 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، صوبے کے مختلف حصوں میں 2014ء کے دوران تقریباً 22 راکٹ حملے کیے گئے، جبکہ پچھلے سال راکٹ حملوں کی تعداد چار تھی۔

یہ اعدادوشمار پولیس کے ایک ترجمان کی جانب سے جمعرات کو یہاں پیش کیے گئے، ان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جرائم کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔

اس سال دہشت گردی کے 401 واقعات رونما ہوئے، اس کے مقابلے میں پچھلے سال ان واقعات کی تعداد 456 تھی۔

سرکاری اعدادوشمار سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پچھلے سال 25 خودکش حملے کیے گئے تھے، جبکہ اس سال ان کی حملوں کی تعداد میں کمی آئی ہے اور اب تک صرف 8 حملے ہوئے ہیں۔

اسی طرح دھماکا خیز مواد کے ذریعے کیے جانے والے دھماکوں میں بھی کمی ہوئی ہے، اس سال اب تک پانچ دھماکے ہوہے ہیں، جبکہ پچھلے سال ان کی تعداد سات تھی۔

پولیس کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ راکٹ حملوں اور ٹارگٹ کلنگ میں اضافے کی وجہ پولیس کی جانب سے سیکیورٹی کے سخت اقدامات تھے۔

ترجمان نے کہا کہ دہشت گرد پریشان ہیں کہ ان کے فائر کردہ راکٹ حملے آباد علاقوں میں پہنچ کر تخریبی کارروائی کا سبب بننے میں ناکام رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس نے کامیابی کے ساتھ 77 دہشت گرد حملوں کو ناکام بنایا ہے اور 260 دہشت گردوں کو گرفتار کیا ہے، جبکہ 77 مقابلے میں مارے گئے تھے۔

پولیس ترجمان نے بتایا کہ تقریباً دہشت گردی کے 626 مقدمات اس سال کے دوران نمٹائے جا چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 70 اغوا کاروں کو گرفتار کیا گیا تھا، اور ان میں سے 43 کو عدالت کی جانب سے سزا دی جاچکی ہے۔ اسی طرح بھتہ خوری کے 78 مقدمات نمٹادیے گئےہیں۔ 145 بھتہ خوروں کو گرفتار کیا گیا تھا، اور ان میں سے 109 کو عدالت کی طرف سے سزا دی جا چکی ہے۔

پولیس ترجمان نے بتایا کہ پولیس نے بہت سے سائنسی اور آپریشنل اقدامات بھی اُٹھائے تھے، اور سرچ آپریشن کے دوران کے-9 یونٹ بھی قائم کیا۔

اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ پولیس نے لوگوں کی رجسٹریشن کا کام بھی شروع کیا ہے تاکہ مشتبہ عناصر تک پہنچا جاسکے اور صوبے میں جرائم پر قابو پایا جاسکے۔

دھماکا خیز مواد برآمد:

پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جمعرات کے روز زانگلی چیک پوسٹ کے قریب دہشت گردوں سے 112 ڈیٹونیٹرز، 12 ریموٹ ریسیورز، دو بیٹریاں، تین بندوقیں اور ایک وائرلیس سیٹ برآمد کرکے اپنے قبضے میں لے لیے۔

ایک اہلکار نے بتایا کہ دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ دہشت گرد اس علاقے میں سخت حفاظتی انتظامات کی وجہ سے اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

اسی دوران آئی جی پی ناصر خان درّانی نے صوبے میں دو سپریٹنڈنٹس آف پولیس اور ایک ڈپٹی سپریٹنڈنٹ کے تبادلے اور تعیناتی کا حکم دیا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

راضیہ سید Jul 05, 2014 02:37pm
پاکستان کے سرحد ی علاقے اپنی خوبصورتی میں مالا مال اور وہاںکے لوگ بھی دریا دل مجھے ان سب باتوں کا اس لئے علم ہے کہ میرے ماموں سی ایس ایس کرنے کرنے کے بعد پولیس سروس میں آئے اور مختلف مقامات پر انکے تبادلے ہوتے ہے اور آخر کار ایسا ہوا کہ وہ خیبر پختنخواہ میں اعلی عہدوں پر فائز رہے ، بہت ہی کم عمری میں میں نے اور میری بنہوں نے ماموں کی وجہ سے پورا سرحد نہیں تو کم از کم کافی سارے شہر دیکھ ضرور لئے تھے جن میں پشاور ، ابیٹ آباد ، مانسہرہ ، ہنگو ، صوابی اور کئی دیگر علاقے شامل ہیں ، بتانے کی بات یہ ہے کہ کیا مزہ ہوتا تھا کہ ایک تو ہم سب بچوں کو سیر و تفریح کا بہت شوق تھا اور دوسری جانب ماموں اور ابو بھی ہمارے ساتھ گھومنے کے لیے ہر وقت تیار ۔۔۔۔کھانے پینے کی چند چیزیں گھر پر بنا کر اور کچھ راستے سے لیکر کبھی پہاڑوں پر چڑھتے کبھی ڈیموں میں جانے کا سوچتے ۔ بہت مزہ آتا اس وقت کوئی خوف نہیں تھا کہ اچانک کوئی کسی کو مارنے آجائے گا ؟ کوئی کسی پر کفر کے فتوے لگائے گا ؟ کبھی یہاں پر دہشتگردی ہو گی کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ پشاور کے قصہ خوانی بازار مٰیں لاشیں بھی ہوں گی ، کبھی کہاں بم دھماکے ہوں گے کبھی کہاں ہوں گے یہ کبھی نہیں سوچا تھا ، ہمارے ملک کا سب سے پرامن خطہ تباہ ہو گیا ، وہاں کے ہوٹلوں کی بری حالت ، سیاح آنہیں رہے ، لوگوں کو اپنی جان کی ہر وقت فکر ہے کیا بنے گا ہمارے ملک کا کاش اس صوبے کی خوشیاں پھر سے لوٹ آئیں ۔۔۔