'قانون کی حکمرانی نہ ہوئی تو جمہوریت برداشت نہیں ہوگی'

اپ ڈیٹ 05 جولائ 2014
سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس تصدق حیسن جیلانی۔ —. فائل فوٹو
سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس تصدق حیسن جیلانی۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے جمہوریت کے لیے محتاط الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اگر آئینی معاہدے اور اقدار عوام کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی لانے میں ناکام رہتی ہیں تو یہ بات کسی صورت بردشت نہیں کی جاسکتی۔

وہ جمعہ کے روز اپنے اعزاز میں منعقد کیے گئے سپریم کورٹ کے ایک فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کررہے تھے، انہوں نے کہا ’’صرف قوانین اور فیصلوں کا نفاذ ہی برداشت اور اعتماد کے رویوں کو فروغ دے سکتا ہے۔‘‘

سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ایسا معاشرہ جو تعلیم کے خسارے سے دوچار ہے، جو ایمان کی کمزوری میں مبتلا ہے، جسے نسل پرستی نے اپنا شکار بنایا ہوا ہے، جو فرقہ واریت نے جسے تقسیم کر رکھا ہے اور جو دہشت گردی سے مقابلہ کررہا ہے، ایسے معاشرے میں اعلٰی عدالت ناصرف آئینی اقدار کا نفاذ کرسکتی ہے، بلکہ بطور ایک تعلیمی ادارے کے بھی اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ایک پیچیدہ ملک میں سپریم کورٹ کے لیے یہ کافی نہیں ہے کہ وہ محض قانون کا نفاذ کرے، بلکہ کسی حد تک یہ ضروری ہے کہ وہ آئینی اقدار کے چیلنجوں کا جرأت مندی کے ساتھ سامنا کرے اور اس کے لیے پہل ظاہر کرے۔

چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کہا کہ پچھلے چند سالوں کے دوران نظامِ عدالت کو جن چیلنجز کا سامنا رہا ہے، اس نے عدلیہ کو متحرک کیا ہے اور وہ ریاست کے ایک فعال ستون کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی ہے۔

نامزد چیف جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ عدالتیں ہمیشہ ایک تنے ہوئے رسّے پر چلتی ہیں۔ ناصرف عوام کے آئینی حقوق کا تحفظ اور اس کا فروغ اس کی آئینی ذمہ داری ہے، بلکہ آئین کے تحت اختیارات کی تقسیم کا احترام کروانا بھی اس کا فرض ہے۔ پاکستان کی گورننس کے ڈھانچے کو صرف اسی صورت میں مستحکم کیا جاسکتا ہے، جبکہ تمام ریاستی ادارے قانون کے مطابق کام کریں اور عوام کی بہتری کے لیے اپنے اختیارات کا استعمال نہایت احتیاط کے ساتھ کریں۔

انہوں نے کہا کہ اداروں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی و اتفاق کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ان کی آئینی ذمہ داری ہے کہ ریاست کے دیگر ستون کے کاموں میں بے جا مداخلت نہ کریں۔ بالفرض جہاں ادارے اس تقسیم کو نظرانداز کردیتے ہیں، وہاں عوام کے حقوق کی خلاف ورزی ہوگی اور انہیں نظرانداز کردیا جائے گا۔

جسٹس ناصرالملک نے کہا کہ اس صورتحال میں عدالت کا کام معاشرے میں ایک توازن پیدا کرنا ہے۔ قوانین کی تشریح کے قوانین کا نفاذ، جس سے وہ مستقبل کے مسائل کا تعین کرکے بے مثال خدمت کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں خود کو یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ ججز کو قانون کے مطابق انصاف کرنا ہے، اور اپنے ذاتی تصورِ انصاف کے مطابق نہیں۔ پیش بینی اور اعتماد کی صلاحیت ہی مستقبل کے شاندار عدالتی نظام کو واضح کرتی ہیں۔

نامزد چیف جسٹس نے زور دیا کہ انصاف کے ذاتی تصور کو جب لگام نہیں دی جاتی، تو اس کی وجہ سے قانون کی سالمیت اور اس کی پیش بینی پر سے عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ججوں کو صرف آئین اور قانون سے رہنمائی لینی چاہیٔے۔

جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ جہاں ریاست کے ہر ستون کو خاص افعال اور ذمہ داریاں دی گئی ہوں، وہاں آئین اختیارات کو تقسیم کرتا ہے۔

اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ، پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین محمد رمضان چوہدری اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضٰی نے بھی سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کی خدمات کو سراہا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

راضیہ سید Jul 05, 2014 10:11am
جسٹس تصدق حسین جیلانی نے دبے لفظوں میں حکومت کی مخالفت یا دوسرے لفظوں میں اسے اسکی حدود بتائی ہیں ، لیکن دیکھنا یہ بھی ضروری ہے کہ آئین میں عدلیہ ، انتظامیہ اور پارلیمنٹ کے کام اور ان کے دائرہ کا ر واضح کیے گئے ہیں تو صرف آج کل عدلیہ ہی اتنی متحرک کیوں نظر آتی ہے ، جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور مٰیں عدالتی اختیارات کا غلط استعما ل کیا گیا اور ابھی بھی عدلیہ اپنی حدود سے تجاوز کر کے انتظامیہ کے تمام تر اختیارات حا صل کر لینا چاہتی ہے ۔ آخر کیوں پہلے ہی ہمارے ملک میں ادارے مضبوط نہیں اور اگر ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسرا ادارہ اسکے کاموں میں مداخلت کو اپنا فرض سمجھتا ہے ، جناب ہر چیز کو سنوارنے کا ٹھیکہ سپریم کورٹ یا باقی ماندہ عدالتو ں کا نہیں ، سیاسی جماعتوں ، سماجی کارکنوں ،حکمرانوں ، انتظامیہ کے افسران ، مذہبی رہنمائوں کا ہے ، عدالت اگھر صرف مظلوم کو انصاف فراہم کر دے تو بہت سے مسائل ویسے ہی حل ہو جائیں گے ، ہر بات پر سوموٹو ایکشن نہیں لیا جا سکتا ، خدارا بڑی مچھلیوں کو بھی پکڑیں جسٹس صاحب ان کے ساتھ نو مک مکا ۔۔۔۔۔۔۔