بے گھر افراد سے متعلق غلط ترجیحات

اپ ڈیٹ 09 جولائ 2014
عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کے مطابق انسدادِ پولیو کی مہم کے دوران چھبیس ہزار چار سو اڑتیس بچوں تک رسائی حاصل نہیں ہوسکی تھی۔ —. فائل فوٹو
عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کے مطابق انسدادِ پولیو کی مہم کے دوران چھبیس ہزار چار سو اڑتیس بچوں تک رسائی حاصل نہیں ہوسکی تھی۔ —. فائل فوٹو

لاہور: یہ خوف برقرار ہے کہ شمالی وزیرستان سے بے گھر ہونے والے بچے پولیو وائرس کو ملک بھر میں پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

اس خوف میں عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ نے مزید اضافہ کردیا ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پچھلی تین روز انسدادِ پولیو کی مہم کے دوران چھبیس ہزار چار سو اڑتیس بچوں تک رسائی حاصل نہیں ہوسکی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’زیادہ سے زیادہ آٹھ ہزار اکیاون بچے دستیاب نہیں تھے، جبکہ سترہ ہزار پانچ تراسی بچوں کو انسدادِ پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کردیا ہے، اس لیے کہ یہ گھرانے اب بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ پولیو سے محفوظ رکھنے والی ویکسین ان کے لیے محفوظ نہیں ہے۔‘‘

اس گنجان آبادی میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کا ہدف پورا کرنے کے لیے شروع کی گئی تین روزہ خصوصی مہم کے اختتام پر ابتداء میں عالمی ادارۂ صحت نے رپورٹ دی تھی کہ سڑسٹھ ہزار دو سو پانچ بچے قطرے پینے سے محروم رہ گئے ہیں، جن میں سے چوالیس ہزار سات سو اکسٹھ بچے دستیاب نہیں تھے اور بائیس ہزار چار سو چوالیس کو قطرے پلوانے سے انکار کردیا گیا تھا۔

بعد میں ہیلتھ ورکروں کی کوششوں سے اگلے دن ایسے بہت سے بچوں کو انسدادِ پولیو کے قطرے پلائے گئے، جو اس سے پہلے محروم رہ گئے تھے۔

یہ انسدادِ پولیو مہم کا انعقاد بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، لکی مروت، ٹانک، کرک اور ہنگو کے ساتھ ساتھ ایسی یونین کونسلوں میں خاص طور پر کیا گیا تھا، جو انتہائی خطرے کی زد میں ہیں۔ اس مہم کے دوران پانچ لاکھ اکیاسی ہزار چار سو تریسٹھ بچوں کا ہدف تھا۔

عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ میں صحت کے دیگر بہت سے خطرات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں جو عالمی ادارے سے منسلک ہیں، کی جانب سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی آبادی کو فراہم کی جانے والی ہنگامی طبی امداد بہت کم تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’ماں بننے والی خواتین کی صحت اور بنیادی صحت کی سہولیات کے درمیان سنگین فرق موجود ہے۔‘‘

مزید یہ کہ مچھر دانیوں اور مچھر مار ادویات کے ساتھ ڈائیریا کی بیماری کی کٹ کی فوری طور پر ضرورت ہے۔

یکم جولائی کو مکمل ہونے والی اس رپورٹ میں سترہ جون سے تیس جون تک نقلِ مکانی کرنے والے افراد کی صحت کی کیفیت کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہاں ڈائیریا اور خارش و پھوڑے سمیت جلدی بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں۔

ڈائیریا کی کٹ اور بنیادی صحت مثلاً جلدی بیماریوں کے لیے دواؤں کی ضرورت ہے۔ جراثیم کش ادویات کی طلب بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ نقل مکانی کرنے والوں کی آبادی کے لیے اینٹی ڈپتھیریا سیرم اور زخموں کی کٹ کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بنوں میں خواتین اور بچوں کے ہسپتال کے ذریعے خدمات فراہم کی جارہی ہیں اور ان سہولیات کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’صحت کی سہولیات کا بنیادی ڈھانچہ ناقص ہے جسے فوری توجہ کی ضرورت ہے، خاص طور پر صفائی کی سہولیات، بجلی، دوائیں، بنیادی سازوسامان۔ نقل مکانی کرنے والے افراد کے لیے مختص کیے گئے سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں صفائی کی حالت انتہائی ناقص ہے، اور باتھ روم اور واش روم کی سہولتوں کا فقدان ہے۔

عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کے مطابق زچہ و بچہ کی صحت کے لیے فراہم کی جانے والی خدمات کو مزید بہتر بنانے اور اس سلسلے میں دواؤں کی فراہمی، طبی سامان اور تربیت یافتہ طبی عملے کی ضرورت ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں