تعلیمی بحران میں خطرناک اضافہ

اپ ڈیٹ 10 جولائ 2014
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

اسلام آباد: ملک ایک ایسے تعلیمی بحران کا سامنا کررہا ہے، جس سے اگر ابھی نمٹا نہیں گیا تو یہ ناقابلِ حل بن سکتا ہے۔

لیکن سیاسی اور وسائل کی مدد سے ایک اصلاحی تعلیمی نظام اب بھی شہریوں میں رواداری پیدا کرسکتا ہے، ایسے شہری مذہبی، نسلی اور ثقافتی تنوع کو قبول کرلیں اور پاکستان کو اس کی اعتدال پسند بنیادوں پر دوبارہ کھڑا ہونے میں مدد دیں۔

پاکستان میں تعلیمی اصلاحات پر جاری ہونے والی انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کا یہ نچوڑ ہے۔

برسلز میں قائم یہ این جی او دنیا بھر میں تنازعات کو روکنے کے لیے کام کررہی ہے، اپنی تحقیق کے نتیجے میں اس کا کہنا ہے کہ ’’اگر پاکستان پانچ سے سولہ سال کی عمرتک کے بچوں کو مفت لازمی تعلیم فراہم کرتا ہے، جو قانونی طور پر ضروری بھی ہے۔ تو اس کے لیے اسے اس نظام کی اصلاح کرنا لازم ہے، جو اساتذہ کی غیرموجودگی، غیر تسلی بخش معیار، گھوسٹ اسکولوں، ایک ایسے نصاب جس سے عدم برداشت کو فروغ ملتا ہو، سے بری طرح بدنام ہوچکا ہے۔اس کے علاوہ یہ ایسے شہری تیار کررہا ہے جو جاب مارکیٹ میں مسابقت کی صلاحیت نہیں رکھتے۔‘‘

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نصاب کی اصلاح ضروری ہے، جس میں کافی تاخیر ہوچکی ہے، اور صوبائی حکومتوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ تدریسی کتابیں اور اساتذہ مذہبی تعصبات اور ملکی و غیرملکی تصوراتی دشمنوں کی داستانوں کی بنیاد پر نفرت کی تبلیغ تو نہیں کررہے ہیں۔

’’ایک ایسا ملک جس میں کام کرنے والی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہو اور نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ہو، ان کے لیے معیاری اسکولوں تک رسائی کی فوری کوششوں کو بہتر بنائے بغیر ، ناقص تعلیم اور ناخواندگی کے نتیجے میں بے روزگاری کی سطح بلند ہوتی جائے گی، اور محدود روزگارکی وجہ سے اقتصادی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔ جب کہ جہادی قوتوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے پاس زیادہ پُرکشش ملازمتیں دستیاب ہوں تو تشدد اور عدم استحکام کو فروغ ملے گا۔‘‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’اس خرابی کو کئی دہائیوں کی غفلت سے نکل کر درست کیا جاسکتا ہے، جس غفلت نے تیز رفتار ناکامیوں کو جنم دیا ہے۔ اس کے لیے نصاب، بیوروکریسی، تدریسی عملے اور سیکھنے طریقوں میں معنی خیز اصلاحات کرنی ہوں گی۔‘‘

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی رپورٹ کے مطابق، غیرتسلی بخش تعلیم اور ناقص تربیت کے حامل اساتذہ اور رٹنے پر مبنی تدریس سے سیکھنے کی حوصلہ شکنی ہورہی ہے۔

ایک غیر اصلاح شدہ نصاب مسلسل مذہبی عدم برداشت اور حقارت آمیز جذبات کو فروغ دے رہا ہے، چنانچہ ایک عوام کے لیے قابلِ اعتماد تعلیم کے شعبے کی عدم موجودگی کی وجہ سے مدرسوں کو پنپنے کا موقع ملا ہے۔

کراچی کے ایک مدرسے میں بچے کھانا کھا رہے ہیں۔ —. فائل فوٹو رائٹرز
کراچی کے ایک مدرسے میں بچے کھانا کھا رہے ہیں۔ —. فائل فوٹو رائٹرز

نجی اسکول پھل پھول رہے ہیں، لیکن ان کی تعداد بہت محدود ہے، سوائے ان کے جو اشرافیہ طبقے کے لیے معیاری تعلیم کی ضروریات پورا کررہے ہیں۔

گوکہ نجی شعبے کی مددکے ذریعے کوششیں کی جارہی ہیں، بشمول شراکت داری اور انسان دوستی کے، لیکن اس چیلنج کی وسعت کو دیکھتے ہوئے اصلاح کے حوالے سے حکومتی اور سیاسی سرپرستی کی ضرورت ہے۔

نجی اسکولوں اور مدرسوں کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے حکومت کو اسکولوں اور اساتذہ کی تعداد میں مزید اضافہ کرنا ہوگا۔ واضح رہے کہ نجی اسکولوں اور مدرسوں نے خستہ حال تعلیمی شعبے کے اس خلاء کو پُر تو کیا ہے، لیکن مذہبی انتہاپسندی اور فرقہ وارانہ تشدد کو بھی ہوا دی ہے۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ وفاقی اکائیوں سے صوبائی حکومتوں کو منتقل کردیا گیا ہے، جن کی جانب سے بچوں کی تعلیم کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے کچھ اقدامات اُٹھائے گئے ہیں۔

اس کے باوجود اب تک تمام صوبوں نے قواعد و ضوابط کے تحت درکار قانون سازی نہیں کی ہے۔ اس کے باوجود کہ بجٹ میں مختص رقم میں اضافہ ہوا ہے، اب بھی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

رپورٹ میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پانچ سے سولہ برس کے لاکھوں بچے جو لازمی اور مفت تعلیم کے حقدار ہیں، تاحال اسکول سے باہر ہیں اور جنہیں اسکولوں میں داخلہ مل گیا ہے، ان کے لیے تعلیمی معیار انتہائی پست ہے۔

اقربا پروری اور بدعنوانی اس نظام کی جڑوں تک پھیل چکی ہے، جس میں اساتذہ کی ملازمتیں، تقرری اور تبادلے بھی شامل ہیں۔

اس میں اشارہ کیا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں کے تشدد اور قدرتی آفات نے ریاست کے تعلیمی نظام کی خرابی میں اضافہ کردیا ہے۔

زلزلوں اور سیلابوں اسکول کی عمارتوں کو تباہ کردیا، جس سے لاکھوں بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی۔

نوّے لاکھ سے زیادہ بچے پرائمری یا سیکنڈری تعلیم نہیں حاصل کررہے ہیں، اور شرحِ خواندگی جمود کا شکار ہے۔

پاکستان 2015ء تک عالمی سطح پر پرائمری تعلیم کی فراہم کے ملینئم ترقیاتی مقاصد کو پورا کرنے سے کافی دور ہے۔ پرائمری اسکولوں میں داخلے کی شرح میں 2012-13ء کے دوران گزشتہ سال کی نسبت ایک فیصد اضافہ ہوا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صنفی عدم مساوات اور شہری اور دیہی علاقوں میں اختلافات سنگین ہوچکے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی بجٹوں میں تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا دو فیصد مختص رقم، جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں