لکھاری ڈویلپمنٹ سیکٹر میں محقق ہیں۔
لکھاری ڈویلپمنٹ سیکٹر میں محقق ہیں۔

"شہر، خوابوں کی طرح، خواہشوں اور خطرات سے پر ہوتے ہیں، چاہے ان کے نظریات کا تانا بانا کتنا ہی پوشیدہ ہو، ان کے قوانین بے سروپا، ان کا ظاہر کتنا ہی غلط تاثر دیتا ہو، اور ہر چیز کسی نہ کسی چیز کو چھپاتی ہو-" ایٹالو کالوینو

جمشید ٹاؤن کے ایک سرسبز محلے میں، ایک ہزار اور دوہزار گز کے بنگلوں کے درمیان آرام دہ دنیا کی نظر سے چھپی ہوئی، ایک بستی موجود ہے، جس کی تنگ گلیوں میں ایک کمرے اور دوکمروں کے بے ضابطہ اور بغیر کسی منصوبے کے بنے ہوئے گھرہیں جہاں شہر میں آئے ہوئے مہاجرین مزدور رہتے ہیں- یہ بستی بانو کالونی ہے- اس کی اوپری منزل کی چھتیں اِدھر اُدھر سے باہر نکلی ہوئی ہیں اور ایک بھول بُھلیّوں جیسی ایک جگہ شگئی کی یاددلاتی ہے، جو سوات میں منگورا کی ایک کچی آبادی تھی-

اس بستی میں جہاں صرف پختون رہتے ہیں، داخل ہونے کے دو راستے ہیں:

مشرق کی جانب سے صرف مردوں کیلئے؛ مغربی راستہ خاندانوں کیلئے ہے- جو راستہ مردوں کیلئے ہے اس میں داخل ہوتے ہوئے ایک لمحے کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے آپ کسی تباہ شدہ عمارت میں داخل ہورہے ہوں- یہاں بغیر کھڑکی کے ایک کمرہ کا کرایہ جس کے ساتھ ایک مشترکہ باورچی خانہ بھی ہے، چھ ہزارروپیہ مہینہ ہے جس میں چھ یا زیادہ مرد--- کم عمرلڑکا، جوان آدمی یا بوڑھا--- مل کر رہتے ہیں-

خاندانوں کی رہائش کیلئے کرایہ 6000 روپیہ سے 8000 روپیہ مہینہ ہے جس میں عموماً دو خاندان رہتے ہیں ان جگہوں میں بجلی اور گیس کی سپلائی قانونی ہے- زیادہ تر بچے گورنمنٹ اسکولوں میں جاتے ہیں جو پڑوس کے علاقوں میں موجود ہیں- بہت کم بچے ایسے ہیں جو اس مدرسے میں جاتے ہیں جو اس بستی کے مغربی جانب اونچی دیواروں کے دوسری طرف ہے

یہ پورے کراچی میں پھیلی سینکڑوں چھوٹی اوربڑی بستیوں میں سے ایک ہے، جس میں مہاجر مزدور رہتے ہیں جو پہاڑوں سے شہروں کو آتے ہیں، میدانوں سے، بنجر زمینوں سے، ملک کےدورافتادہ علاقوں سے اپنے اور اپنے بچوں کیلئے ایک بہتر زندگی کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے، وہ ہر طرح کے کام کرنے کو تیار ہوتے ہیں اور مشکل زندگی گذارتے ہیں، اور اس کیلئے شہروں کے بیچ میں رہتے ہیں-

یہ شہروں کے ڈرائیور ہیں، بوجھ اٹھانے والے، گاڑیاں صاف کرنے والے، چوکیدار، دوکانوں میں کام کرنے والے، نان بنانے والے، گھریلو ملازمین، چائے والےاور پھل کا خوانچہ لگانے والے- غیرہنرمند، کم اجرت اور نیم مستقل کارکنوں کی بڑی تعداد لیبر مارکیٹ کی بے یقینی کا شکار رہتی ہے- شہریوں کے حقوق سے بے خبر، ستایا ہوا، لکیر کا فقیر، ٹریڈ یونینوں کا دھتکارا ہوا، یہ مہاجر کارکن معاشرتی دھارے سے الگ تھلگ ہوتا ہے- اور یہ اس بے قاعدہ لیبر فورس کا حصہ ہے جو ہرقسم کے قانونی حقوق سے محروم ہے-

اندازے کے مطابق ہرمہینے 50,000 مزدور کام کی تلاش میں کراچی آتے ہیں--- کراچی کے بارے میں تشدد پسندی کی خراب شہرت کے باوجود--- ایک بہتر زندگی کی خواہش لئے ہوئے- 21 ملین لوگوں کی آبادی والا شہر، کراچی دنیا کے 10 سب سے بڑی آبادی والے شہروں میں ہے- اگرچہ کہ پاکستان میں تیزی سے شہری آبادی بڑھ رہی ہے لیکن سندھ میں یہ تیزی سارے صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے- 2012-2013 کے لیبر فورس کے سروے کے مطابق، سندھ میں 12.23 ملین مزدور ہیں، جس میں شہروں میں کام کرنے والے5.86 ملین یعنی 47.9 فیصد، بمقابلہ پنجاب کے جہاں 33.37 فیصد شہری مزدور ہیں، بلوچستان میں 23 فیصد اور 19.22 فیصد خیبر پختونخوا میں-

ایک مردم شماری اندرونی ہجرت کا اندازہ لگانے کیلئے 1998ء میں ہونا تھی- اس بارے میں کئی تحقیقاتی مطالعوں کے مطابق ان شہری ہجرتوں کا سبب گاؤں میں شدید غربت اور انسانی ترقیاتی کاموں کی کمی کا ہونا ہے- اپنے آبائی علاقوں کو غربت کی وجہ سے چھوڑنا، کیونکہ شہرمزدور کیلئے کشش رکھتے ہیں اور ان کو اتنی آمدنی ہوجاتی ہے کہ اپنے خاندانوں کو رقم بھیجنے کے بعد بھی ان کی گذربسر کیلئے کچھ بچ جاتا ہے-

اندرونی ہجرت، ساری دنیا میں پالیسی سازوں، ریسرچ کرنے والوں اورسول سوسائٹی کیلئے ایک کم ترجیحی کام ہے حالانکہ عالمی پیمانے پر ہجرت کے مقابلے میں اندرونی ہجرت چارگنا زیادہ ہوتی ہے- پاکستان میں، اندرونی ہجرت پالیسی سازوں کی توجہ کے دائرے سے باہر ہے- 2010 ء کی لیبر پالیسی میں اس کا تذکرہ بھی نہیں ہے اور نہ اندرونی ہجرت کرنے والے کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں کوئی قانون ہے-

ریاست نے کبھی بھی کوئی خصوصی اسکیم شہروں میں کام کرنے والے مختلف نسلی گروہوں کے مزدوروں کو متحد کرنے کیلئے نہیں بنائی ہے- اندرونی ہجرت---جوشہروں کی تشکیل اور ترقی کا لازمی حصہ ہے---شہری پالیسیوں میں نظر نہیں آتی- سول سوسائٹی کی جانب سے بھی اندرونی ہجرت کرنے والے کارکن کے فائدےکیلئے کوئی خاص پیش قدمی نہیں کی گئی ہے-

جنوبی ایشیا کے ملکوں میں، صرف بھارت میں انٹر اسٹیٹ مائیگرنٹ ورک مین ایکٹ 1979ء ( Regulation of Employment and Conditions of Service) ہے، جس کا مقصد اندرونی ہجرت کرنے والے کارکن کے حقوق کی حفاظت ہے- اس قانون میں ہجرت کرنے والوں کے لئے برابر کی اجرت، اجرت کے ساتھ چھٹی پر گھر جانے کا حق ، اورصحت کی دیکھ بھال اور کام کرنے کی جگہ پر رہنے کے حقوق شامل ہیں-- اگرچہ کہ قانون کا نفاذ نہیں ہوا، لیکن ہجرت کرنے والے کارکنوں کے کام کرنے کے لئےحالات کو منصفانہ بنانے کی بنیاد فراہم کردی گئی ہے-

ہندوستان میں اندرونی ہجرت کرنے والے کارکنوں کیلئے کئی این جی اوز موجود ہیں- آجی ویکا بیورو، اودے پور، موسمی کارکنوں کیلئے خدمات انجام دیتی ہے- پرایا سنٹر فار لیبر ریسرچ اینڈ ایکشن، چتوڑ گڑھ، ہجرت کرنے والے کارکنوں کو یونین بنانے میں مدد کرتی ہے- لیبرنیٹ، بنگلور، ان کی رجسٹریشن، تربیت، اور ان کو روزگار دلانے کی سہولتیں بہم پہنچاتی ہے- راشننگ کروتی سمیتی، ممبئی میں این جی اوز کا ایک نیٹ ورک ہے جوورکروں کو سبسڈائزڈ راشن وغیرہ مہیا کرنے میں مدد دیتا ہے

اب وقت آگیا ہے کہ حکوت پاکستان کو بھی ان چیلنجوں کی طرف دھیان دینا چاہئے- عالمی سطح پررجسٹریشن ان تمام ورکرز کے حقوق کے ادراک کے لئے ضروری ہے- اوراس رجسٹریشن کی بنا پرہی ان کو سوشل سیکیورٹی کی سہولیات ملنا ممکن ہوگا کیونکہ اس رجسٹریشن کو کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ سے جوڑ کر ہر ورکر کی شناخت ثابت کی جاسکتی ہے-

نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی اس ملک کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی صحیح معنوں میں آج تک تعریف نہیں کی گئی ہے- جنوبی ایشیا کا کوئی بھی ملک، ہندوستان سمیت اس پائے کا قومی سطح پررجسٹریشن کا نظام قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے- اور اب اس نظام کو نیشنل سیکیورٹی اور آبادی کی گنتی سے آگے بڑھاکرشہریوں کے حقوق اوردوسرے قومی سطح کے وسیع تر مفادات کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے-

انگلش میں پڑھیں


ترجمہ: علی مظفر جعفری

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں