اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر بڑھتے ہوئے حملے

اپ ڈیٹ 19 جولائ 2014
کراچی کا پچاس برس قدیم مندر، جسے حکام کی جانب سے 2012ء میں مسمار کردیا گیا تھا۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
کراچی کا پچاس برس قدیم مندر، جسے حکام کی جانب سے 2012ء میں مسمار کردیا گیا تھا۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

کراچی: کل یہان ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے زیرِ اہتمام ایک پروگرام میں ماہرین کے ایک گروپ نے اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حالیہ حملوں، ان حملوں کا ارتکاب کرنے والوں اور ان کے مقاصد اور ان کی اس کارروائیوں کے ان کمیونٹیوں پر اثرات جیسے کچھ مسائل کا جائزہ لیا۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم رہنما آئی اے رحمان جو ایچ آر سی پی کے سیکریٹری جنرل بھی ہیں، نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’اقلیتی گروہوں کی عبادت گاہوں پر حملوں نے ان برادریوں پر انفرادی حملے سے کہیں زیادہ تکلیف پہنچائی ہے۔ یہ حملے صرف لاء اینڈ آرڈرز کے لیے پریشانی کا سبب ہی نہیں ہیں۔ایسی کمیونٹیز جو اس میں ملؤث ہیں، ان حملوں کی وجہ سے ان کے اندر عدم برداشت، شعوری پختگی میں کمی اور دوسروں کے لیے احترام کا فقدان ہوتا جارہا ہے۔‘‘

ریٹائیرڈ جسٹس مہتا کیلاش ناتھ کوہلی نے کہا کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے بارے میں کیا کہا جائے، جب انہوں نے کوئٹہ میں ہندوؤں کے شمشان گھاٹ کو بچانے کے لیے ایک کیس سپریم کورٹ میں لڑا تھا، جس پر اپارٹمنٹس کی بلڈنگ تعمیر ہونے جارہی تھی۔

انہوں نے کہا ’’متروکہ وقف املاک کے قانون نے ہم اقلیتوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے، جس کے تحت حکومت نے ہمارے حق پر قبضہ کرلیا ہے۔ مذہبی مقامات پر باہر سے حملے ہوئے، جبکہ متروکہ املاک وقف کے محکمے نے ہمیں اندر سے مارا ہے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ اس قانون کی وجہ سے مجھے ایک مندر کی مرمت کی اجازت بھی نہیں ہے، جب میں نے ایسا کیا تو وہ مجھے گرفتار کرنے آگئے۔‘‘

جسٹس مہتا کیلاش ناتھ کوہلی نے ہندوستان میں بابری مسجد کے واقعے پر افسوس کا اظہار بھی کیا، جس کے بعد بلوچستان میں بہت سے مندروں کو نذرِآتش کردیا گیا یا انہیں نقصان پہنچایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں ایک مندر محفوظ رہا، جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار چوکس تھے، جس کے لیے ہم ان کے شکرگزار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’’مندروں اور اقلیتی گروہوں کے دیگر مذہبی مقامات پر حملوں کی وجوہات میں مذہبی انتہا پسندی، زمین اور جائیداد کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، عدم برداشت اور ان مقامات کی حفاظت کے سلسلے میں حکومت کی غفلت شامل ہیں۔ میں ان ناانصافیوں کی رپورٹنگ نہ کرنے پر میڈیا کا محاسبہ بھی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

ان کے مطابق اقلیتوں کے مسائل میں سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی بھی ایک اہم وجہ تھی۔

جسٹس مہتا نے کہا ’’سیاسی جماعتیں صرف اس کو ہی پارٹی ٹکٹ دیتی ہیں، جو ان کی مرضی پر چلتا ہے، نہ کہ اس کو جو اس کا حقدار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقلیتی گروہوں کی دیکھ بھال کے لیے 1947ء کے بعد سے اب تک ایک قانون بھی نہیں بنایا گیا۔‘‘

پروفیسر اعجاز قریشی نے نشاندہی کی کہ یہ محض ہندوؤں، مسیحیوں یا سکھوں کا ہی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ شیعہ اور احمدی بھی اس کا شکار ہیں، جو پاکستان میں اقلیت میں ہیں۔

انہوں نے کہا ’’اور ان میں سے کسی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے، ہم انہیں دیگر ملکوں کی جانب نقل مکانی کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔‘‘

اربن ریسورس سینٹر کے زاہد فاروق نے کہا کہ اقلیتوں کے بارہ ہزار کے قریب خاندانوں نے پاکستان سے نقل مکانی کی تھی، اور وہ تھائی لینڈ، سری لنکا یا ملائیشیا میں خاصی بری حالت میں اور دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت کے ساتھ زندگی گزرانے پر مجبور ہیں۔

انہوں نے کہا ’’ہمارے قبرستان بھی بھر چکے ہیں، اور ہم پرانی قبروں پر نئی قبریں بنانے پر مجبور ہیں۔‘‘

لاڑکانہ میں ایک ہندو دھرم شالہ پر حملے کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے منگلا شرما نے کہا کہ اس واقعے میں ملؤث ایک ہندو شخص اب بھی زیرِ حراست ہے، جبکہ مسلمانوں کو ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا ’’پھر بدین کا واقعہ رونما ہوا، جس میں ہمارے ہولی کے تہوار کے دوران کسی نے ہمارے رنگوں کا استعمال کرتے ہوئے کچھ لکھا۔ جو کوئی بھی کچھ کرنا چاہتا ہے، کر گزرتا ہے اور پھر غائب ہوجاتا ہے۔ جبکہ قومی میڈیا نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔‘‘

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ’’لیاقت نہرو معاہدے کے تحت ہندوستان میں مسلمانوں کی جائیداد کی وہاں کی مسلمان برادری کی جانب سے دیکھ بھال کی جارہی ہے، جبکہ یہاں جو اقلیتیں ہیں، انہیں اپنی برادری کی ذمہ داری دی گئی تھی، لیکن سپریم کورٹ اور چیف جسٹس نے اس معاہدے کی پیروی نہیں کی۔‘‘

اقلیتوں کے مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کے تحفظ اور دیکھ بھال کے معاملے پر بات کرتے ہوئے آل ہندو رائٹس آرگنائزیشن کے صدر ڈاکٹر موہن منجیانی نے جہانگیر کوٹھاری پریڈ پر کلفٹن کے تاریخی مندر کا مسئلہ اُٹھایا، جس کے اردگرد کی جانے والی کھدائی سے تباہی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

انہوں نے اپنے خوف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’مون سون سر پر ہے اور جلد ہی بارشیں ہوں گی، اس مقام پر یقیناً پانی سیلابی صورت میں بھر جائے گا، جو اس مندر کی بنیاد کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہوگا۔‘‘

ایچ آر سی پی کے ڈاکٹر جے پال چھابڑیا نے پاکستانی اسکول کی کتابوں میں گمشدہ تاریخ کی نشاندہی کی۔ انہوں نے کہا ’’پاکستان کے قیام میں ہندوؤں اور مسیحیوں کا اہم کردار تھا، لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہماری درسی کتابوں سے لاپتہ ہے۔‘‘

انہوں نے بتایا کہ ’’قائداعظم محمد علی جناح نے گیارہ اگست کو اپنی تقریر جوگندرا ناتھ منڈل کی صدارت میں پیش تھی۔ جوہمارے پہلے وزیرِ قانون بھی تھے، لیکن ہماری تاریخ کی کتابوں میں اس حقیقت کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ جب کہ لاہور کی قرارداد پاس کی جارہی تھی، تو اس کے لیے تین ووٹوں کی کمی تھی، اور یہ تین ووٹ مسیحیوں کی جانب سے دیے گئے تھے، لیکن ہم اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے۔‘‘

ڈاکٹر جے پال چھابڑیا نے کہا کہ ہندوستان اور برطانیہ میں تمام سیاسی جماعتوں کے اقلیتی ونگ نہیں ہوتے، لیکن یہاں پاکستان میں اقلیتی ونگ بنائے جاتے ہیں، اور اس کا حصہ بنا کر وہ ہم سے ہماری حمایت حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ہماری سیاسی جماعتیں مؤثر افراد نہیں چاہتیں، بلکہ وہ صرف وفادار چاہتی ہیں۔‘‘

پاکستان سکھ کونسل کے سربراہ اور سرپرست سردار رمیش سنگھ نے کہا کہ ان کی مقدس کتاب گزشتہ سال مارچ سے سات مرتبہ جلایا یا نقصان پہنچایا گیا تھا، لیکن سندھ حکومت نے محض اس کی مذمت کرکے مجرموں کو سزا دیے بغیر آزاد چھوڑ دیا۔

انہوں نے کہا کہ ان سات واقعات کی صرف د و ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، حکومت نے صرف ہمارے مسائل کو قالین کے نیچے چھپادیا ہے۔ ’’اگر ہمارے وزراء ہماری مدد نہیں کرسکتے تو ہمیں انتخابات سے علیحدہ ہوجانا چاہیٔے۔‘‘

ڈاکٹر وجے کمار نے کہا کہ پاکستان میں زیادہ تر ہندو سندھ میں ہیں اور انہیں نشانہ بنانے کو وہ ایک حکمت عملی کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کے تحت صوبے میں سندھیوں کی تعداد کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، تاکہ وہ بھی ایک اقلیتی گروہ کی صورت اختیار کرجائیں۔

سابق رکن صوبائی اسمبلی پتمبر سیوانی، ڈاکٹر صابر مائیکل، رکن صوبائی اسمبلی مائیکل جاوید، اندر آہوجا، ہریجن کمیونٹی کے نمائندے پرکاش پی چنال اور شجاع الدین عامر نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں