دریائی پانی کے اخراج و پیمائش کا آزاد معائنہ، سندھ کا بائیکاٹ

اپ ڈیٹ 21 جولائ 2014
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے بشام اور تربیلا ڈیم کے درمیان دریائے سندھ کے پانی کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا۔ —. فائل فوٹو
انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے بشام اور تربیلا ڈیم کے درمیان دریائے سندھ کے پانی کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: پانی کے اخراج میں اور بین الصوبائی تقسیم کے اہم مقامات پر اس کی پیمائش میں بڑھتے ہوئے تضادات کے نتیجے میں حکومت سندھ نے اتوار کو سندھ بلوچستان کی سرحد کے مقام پر ایک آزاد معائنے کا بائیکاٹ کردیا۔

انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی جانب سے تشکیل دی گئی ایک آزاد ٹیم نے خیبر پختونخوا کے رکن عبدالرقیب خان اور سیکریٹری خالد ادریس کی قیادت میں صوبائی سرحد کے مقام پر گرانگ ریگولیٹر کا دورہ کیا ۔

یہ ٹیم نیشنل انجینئرنگ سروس آف پاکستان (نیسپاک) کے انجینئروں اور بلوچستان اور سندھ کے محکمہ آبپاشی کے نگران انجینئروں پر مشتمل تھی۔

تمام اسٹیک ہولڈرز کی موجودگی میں اس ٹیم نے گرانگ ریگولیٹر پر کیرتھر کینال سے آنے والے بہاؤ کی پیمائش کی اور اس بہاؤ کو 2105 کیوسکس ریکارڈ کیا۔ جو اس مقام پر بلوچستان کے لیے مختص 2400 کیوسکس کے مختلف تھا۔

بلوچستان کے محکمہ آبپاشی کے ایک نگران انجینئر عبدالستار لختی نے انسپکشن ٹیم سے شکایت کی کہ سندھ ان کے صوبے کے لیے مختص پانی کا پورا حصہ دینے سے گریز کررہا تھا، جبکہ اس مسئلے کے حل کے لیے متعدد بار درخواستیں کی گئی تھیں۔ یہ مسئلہ گزشتہ ماہ اُبھر کر سامنے آیا تھا۔

اس معائنہ ٹیم کو یہ بھی بتایا گیا کہ یہ صورتحال پٹ فیڈر کینال پر اور بھی زیادہ سنگین تھی، اور بلوچستان پچھلے چھ ہفتوں سے زیادہ عرصے سے اپنے حصے کا مکمل پانی حاصل نہیں کررہا تھا۔

ڈان سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے عبدالستار لختی نے کہا کہ ناصرف بلوچستان ارسا کے منظور کردہ اپنے حصے کے پانی سے تین سو کیوسکس کم پانی حاصل کررہا تھا، بلکہ اس کو پٹ فیڈر سے بھی اس کے حصے کا پانی نہیں حاصل ہورہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے لیے چھ ہزار سات سو کیوسکس پانی مختص کیا گیا تھا، لیکن صرف پانچ ہزار دوسو کیوسکس پانی حاصل ہورہا تھا۔

عبدالستار لختی نے کہا کہ سندھ کے محکمہ آبپاشی کے نگران انجینئروں اور ان کی ٹیم نے الزام عائد کیا کہ معائنہ کی ٹیم کی موجودگی لی گئی پیمائش غلط تھی اور انہوں نے حاضری اور پیمائش کی شیٹ پر دستخط کرنے سے انکار کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک اجلاس یا معائنے کے شرکاء کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ وہ ریکارڈ کے لیے حاضری اور پیمائش کی شیٹ پر دستخط کریں، لیکن سندھ کے نمائندوں نے اس کارروائی کا بائیکاٹ کردیا۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایک طرف تو سندھ کوٹری بیراج کی جانب سے تیس ہزار کیوسک کا ڈاؤن اسٹریم کا غیر مجاز بہاؤ جاری کررہا تھا، لیکن وہ بلوچستان کو اس کے حصے کا پانی دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔

عبدالستار لختی نے کہا ’’ہم نے ارسا اور حکومتِ سندھ کو شکایت کی تھی، لیکن وہ سب رائیگاں گئی۔آج ارسا کی ٹیم نے اس صورتحال کا خود ہی مشاہدہ کرلیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اب ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔‘‘

اسی دوران ارسا نے پنجاب کے لیے دریائے سندھ سے چشمہ جہلم لنک کینال کو پندرہ ہزار کیوسکس پانی جاری کیا، اس لیے کہ جہلم چناب زون میں بہاؤ کم ہوا ہے اور سندھ زون کے بہاؤ میں بہتری آئی ہے۔

یہ اس حقیقت کا ثبوت تھا کہ تربیلاڈیم میں اتوار کو ریکارڈ کیا جانے والا پانی کا بہاؤ دو لاکھ چوبیس ہزار کیوسکس تھا، جہاں ایک ہفتے پہلے یہ بہاؤ دولاکھ کیوسکس تھا۔جبکہ دریائے جہلم میں منگلا کے مقام پر پانی کا بہاؤ لگ بھگ پینتالیس ہزار کیوسکس کی سطح پر رکا ہوا تھا۔

ارسا کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ پنجاب پہلے ہی دو ہزار کیوسکس پانی دریائے سندھ سے گریٹر تھل کینال کے لیے حاصل کررہا تھا۔ انہوں نے دریائے سندھ سے چناب زون کو چشمہ جہلم لنک کینال کے ذریعے پانی کے بہاؤ کو موڑنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ پنجاب کے لیے مختص پانی کے حصے میں سے ہی ایڈجسٹمنٹ کی گئی تھی۔

پچھلے چند ہفتوں سے واٹر ریگولیشن اور آبپاشی کے حکام نے دریا کے بہاؤ میں اور ان کی پیمائش کے اندر غیرمعمولی اختلاف پایا تھا، جس کے نتیجے میں صوبائی تنازعات پیدا ہوئے اور دریائے سندھ کے آبپاشی کے نظام میں صوبوں کے پانی کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔

اس سے قبل سندھ، بلوچستان اور پنجاب نے بشام اور تربیلا کے درمیان پانی کے بہت بڑے نقصان جبکہ چشمہ بیراج پر غلط پیمائش پر احتجاج کیا تھا ۔

سندھ نے چشمہ و تونسہ بیراجوں اور تونسہ و گدو بیراجوں کے درمیان پانی کی غلط پیمائش کی شکایت کی تھی، جس میں پچاس ہزار کیوسکس کا فرق آرہا تھا۔

چند روز قبل ایک خصوصی اجلاس کے دوران ارسا نے تشویش کے ساتھ بشام اور تربیلا ڈیم کے درمیان دریائے سندھ کے پانی کی گمشدگی کا حوالہ دیا تھا۔

اس محکمے کے مطابق دریا کے ساتھ قائم مختلف گیجنگ اسٹیشنوں سے ملنے والی اطلاعات کا متواتر مشاہدہ کیا گیا تھا، اور جانچ پڑتال کے عمل کے دوران اخراج کی پیمائش میں 33 فیصد کا حیران کن فرق ریکارڈ کیا گیا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Nadeem Jul 22, 2014 01:41am
They don't wanna do any thing for the progress and they dont wanna see to any one struggling for the progress its called Qom Prast. Even kala Bagh dam is very important for the Pakistani economy.