ٹوٹے برتن

28 جولائ 2014
امّی کا خیال ہے کہ ایسے برتن پورے گاؤں میں کسی کے پاس نہیں۔ وہ تو ان برتنوں کو استعمال کرنے ہی  نہیں دیتی -- فوٹو -- وائٹ سٹار / عارف علی
امّی کا خیال ہے کہ ایسے برتن پورے گاؤں میں کسی کے پاس نہیں۔ وہ تو ان برتنوں کو استعمال کرنے ہی نہیں دیتی -- فوٹو -- وائٹ سٹار / عارف علی

گھر میں ہر طرف خوشی کا سماں تھا، ہر شخص کے چہرے سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔ امّاں اور ابّا کے چہرے پر تو خوشی دیدنی تھی۔ بہت دنوں کے بعد گھر کے سارے افراد اکٹھے دکھائی دے رہے تھے۔ اُس کی بہن اپنے شرارتی بچّوں کے ساتھ کل ہی سے آدھمکی تھی۔

امّاں اور ابّا خلافِ معمول بچّوں کی شرارتوں سے محظوظ ہو رہے تھے۔ خوشی اُن کے چہروں سے پھوٹی پڑ رہی تھی۔ وجہ ہی کچھ ایسی تھی۔ اللہ بخش پورے ڈیڑھ سال کے بعد گھر واپس آرہا تھا۔ اگرچہ وہ پچھلے سالوں کے دوران کئی مرتبہ گھر آچکا تھا لیکن اس مرتبہ بات ہی کچھ اور تھی۔ اسے تعلیم مکمل کرنے کے بعد شہر میں ایک اچھی نوکری جو مل گئی تھی۔ امّاں اور ابّا اپنے اِکلوتے بیٹے کی اس شاندار کامیابی پر پھولے نہیں سما رہے تھے۔

کئی سواریاں تبدیل کرنے اور کئی گھنٹے کی مسافت کے بعد جب اللہ بخش اپنے گاؤں میں داخل ہوا تو اُسے ایک انجانی خوشی کا احساس ہو رہا تھا۔ اس مرتبہ اُسے گاؤں واپس آنے میں زرا دیر ہو گئی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ چونکہ ملازمت ملنے کے بعد اسکا ارادہ شہر ہی میں رہنے کا تھا اس لئے مناسب رہائشگاہ ڈھونڈنے کے لئے اسے کافی پاپڑ بیلنے پڑے تھے۔

گاؤں میں داخل ہوتے وقت وہ اس بار بھی اپنی مٹّی سے بے پناہ محبت محسوس کئے بنا نہ رہ سکا۔ اسے احساس ہوا کہ پچھلے ڈیڑھ سال میں اس کے گاؤں میں کچھ زیادہ تیزی سے تبدیلی آئی تھی۔ کچے مکانات کی جگہ کچھ پکّے گھروں نے لے لی تھی۔

گاؤں کے چھوٹے بازار میں تو کچھ زیادہ ہی رونق نظر آئی۔ لالہ بنسی رام کی دوکان پر نظر پڑی تو دیکھا کہ لالہ دوکان پر آئے کچھ گاہکوں کو نمٹانے میں مصروف تھے۔ دوکان کی حالت پہلے سے کچھ بہتر نظر آرہی تھی۔ لالہ کی صحت بھی پہلے سے کچھ بہتر دکھ رہی تھی۔

اُسے اپنے بچپن کے دوست رام دیو کی یاد آئی جو لالہ بنسی رام کا منجھلا بیٹا تھا۔ دونوں نے نہ صرف گاؤں میں اپنا بچپن اکٹھے گزارا تھا بلکہ کئی سال تک اکٹّھے پڑھتے بھی رہے تھے۔

"جانے وہ کیسا ہوگا، دوبئی سے واپس آیا بھی ہوگا کہ نہیں؟" اِنہی سوچوں میں ڈوبا وہ گھر پہنچا جہاں اس کے استقبال کے لئے بہت سارے لوگ جمع تھے۔

اگلے کئی دنوں تک گھر میں مہمانوں کا تانتا بندھا رہا۔ لیکن اُسے سب سے زیادہ خوشی تب ہوئی جب اُسے پتہ چلا کہ اُس کے بچپن کا دوست رام دیو بھی تین سالوں کے بعد گھر آیا ہوا ہے۔ مہمانوں سے کچھ فراغت ملی تو سوچا کہ اس کے گھر کا چکّر لگایا جائے۔

گھر سے نکل کے تھوڑی دور ہی گیا ہوگا کہ رام دیو سے ملاقات ہوگئی۔ پتہ چلا کہ وہ اُسی کی طرف ہی آرہا تھا۔ دونوں بڑی گرم جوشی کے ساتھ ملے۔ اللہ بخش اسکا ہاتھ پکڑے دوبارہ گھر کی طرف مڑا لیکن رام دیو کے کہنے پر دونوں اُس درخت کے نیچے جا بیٹھے جہاں وہ بچپن میں کھیلا کرتے تھے۔

باتیں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ وقت گزرنے کا احساس تب ہوا جب ہوا میں خنکی بڑھنے لگی اور اندھیرا ہونے لگا۔ دونوں اُٹھ کے گھروں کی طرف جانے لگے تو طے پایا کہ اگلے کچھ دنوں میں دونوں پھر ملیں گے اور اس بار یہ ملاقات رام دیو کے گھر پر ہوگی جہاں دونوں نہ صرف جی بھر کے باتیں کریں گے بلکہ اپنے پسندیدہ کھانے بھی کھائیں گے۔

مقررہ دن جب اللہ بخش رام دیو کے گھر پہنچا تو اس کے گھر والے کسی تقریب میں گئے ہوئے تھے۔ گھر میں صرف اُس کی بھابھی موجود تھی جو دونوں کے لئے کھانا بنانے میں مصروف تھی۔

دسترخوان پر مختلف قسم کی سبزیوں کے علاوہ مرغی کا سالن نظر آیا تو اللہ بخش کو حیرت انگیز خوشی ہوئی۔ اُسکی حیرت کو بھانپتے ہوئے رام دیو نے سرگوشی میں کہا کہ مجھے معلوم ہے تمہیں مرغی کا سالن بہت پسند ہے اس لئے میں یہ چپکے سے بازار سے لیکر آیا ہوں ورنہ گھر میں تو ہم گوشت پکانے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔

رام دیو نے بڑے سلیقے سے رکا بیوں میں کھانا چُنا اور دونوں باتیں کرتے ہوئے کھانا کھانے لگے۔

"یہ برتن میں اپنے ساتھ دوبئی سے لے کر آیا ہوں"، رام دیو نے برتنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"امّی کا خیال ہے کہ ایسے برتن پورے گاؤں میں کسی کے پاس نہیں۔ وہ تو ان برتنوں کو استعمال کرنے ہی نہیں دیتی، کہتی ہے کہ انہیں خاص مواقع پر ہی استعمال کرنا چاہئے"۔

برتن واقعی خوبصورت تھے۔ کانچ کے سفید برتنوں پر جا بجا گلاب کے خوبصورت پھول بنے ہوئے تھے۔ وہ رام دیو کے گھر سے نکلا تو اُسے اگلی رات اپنے گھر دعوت دینا نہ بھولا۔ اُس کا خیال تھا کہ شہر جانے سے پہلے اُنہیں کم از کم ایک مرتبہ پھر مل بیٹھنا چاہئے تاکہ بچپن کی یادوں کو پھر سے تازہ کیا جاسکے۔ اگلی ملاقات نہ جانے پھر کب ہو؟

اللہ بخش نے بھی اپنی طرف سے کھانا تیار کروانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ دونوں نے نہ صرف ڈٹ کر کھانا کھایا بلکہ دیر تک آپس میں باتیں بھی کرتے رہے۔

اگلی صبح وہ اُٹھا تو اُسے گھر میں ایک عجیب تناؤ کا احساس ہوا۔ بہن اپنا سامان باندھے جیسے جانے کے لئے تیار بیٹھی تھی۔ بچّے بھی ہر روز کی طرح اُچھل کود کرنے کے بجائے خاموشی سے ایک طرف بیٹھے دکھائی دئیے۔ ابّا کہیں نظر نہیں آرہے تھے، شاید صبح سویرے کسی کام سے نکل پڑے تھے۔

امّاں سے سامنا ہوا تو اس کے چہرے پر ایک عجیب کراہت اور غصّے کا احساس ہوا۔ اُسے حیرانی ہوئی۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران اس نے ماں کو ایک عجیب خوشی سے سرشار دیکھا تھا۔ پھر یہ اچانک کیا ہوا؟

وہ کچھ پوچھنے ہی والا تھا کہ اس کی بہن نے اسے ایک طرف بلایا اور ایک گٹھڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا "امّاں نے کہا ہے کہ وہ اس گٹھڑی کو لے جا کر نالے میں پھینک آئے"۔

اس نے پھر کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن اس کی بہن نے ایک بار پھر روکتے ہوئے کہا کہ اس گٹھڑی میں در اصل وہ برتن ہیں جن میں رات کو اس نے اور رام دیو نے کھانا کھایا تھا۔

"امّاں کا خیال ہے کہ یہ گھر کے بہترین برتن تھے جنہیں مہمانوں کی آمد پر ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ غلطی میری ہے کہ میں نے امّاں سے پوچھے بغیر تم دونوں کو انہی برتنوں میں کھانا کھلایا۔ اب امّاں کے مطابق چونکہ اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ رام دیو نے کن برتنوں کو ہاتھ لگایا تھا اس لئے ان کا یہی خیال ہے کہ اب یہ برتن ہمارے استعمال کے قابل نہیں رہے اس لئے انہیں پھینک دینا چاہئے۔

وہ کچھ دیر کے لئے ہکا بکا رہ گیا۔ اسے اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ اس مسئلے پر وہ گھر والوں کو قائل نہیں کر سکتا۔ مزید کسی بدمزگی سے بچنے کے لئے اس نے خاموشی سے گٹھڑی اٹھائی اور گھر سے باہر نکل گیا۔

اس کا رخ اس گندے نالے کی طرف تھا جہاں گاؤں کے لوگ عموماَ اپنا کوڑا کرکٹ پھینکتے تھے۔ وہ دل ہی دل میں اس بات کی دُعا مانگ رہا تھا کہ کوئی اُسے برتن پھینکتے ہوئے دیکھ نہ لے۔

نالے کے پاس پہنچ کر اُس نے ایک نگاہ آس پاس دوڑائی اور گٹھڑی کاندھے سے اُتار کر زور سے نالے میں پھینک دی۔ ایک چھناکے کے ساتھ برتنوں کے ٹوٹنے کی آواز آئی۔ اُس نے نیچے نالے میں جھانک کے دیکھا تو گٹھڑی کھل چکی تھی اور سارے برتن ٹوٹ کے بکھر چکے تھے۔

واپسی کے لئے مڑنے ہی والا تھا کہ اُس کی نظر نالے میں بکھری کچھ دوسری چمکدار چیزوں پر پڑی۔ تجسّس نے سر اُبھارا، غور سے دیکھا تو کچھ فاصلے پر بعض دوسرے برتنوں کے ڈھیر سارے ٹکڑے نظر آئے۔ کانچ کے اُن سفید برتنوں پر جا بجا گلاب کے خوبصورت پھول بنے ہوئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (5) بند ہیں

آشیان علی Jul 28, 2014 02:35pm
چنگیزی صاحب افسانے نے ہزاروں سوال ذہن میں پیدا کر دیے مگر جواب صرف ایک ہے ! ہزاروں سوالوں کا ایک جواب سب جانتے بھی ہیں. بولتے بھی نہیں ! مگر بول بھی کیسے سکتے ہیں ؟ شائد بولنا بھی جرم ہو !
Naseem Javed Jul 28, 2014 03:50pm
حقیقی خوشی وہ ھے جس میں سب شریک ھوں، بغیر کسی نسلی اور مذھبی تفریق کے جو خالصتاً انسانی محبت کی بنیادوں پر قائم ھوں۔ حسن صاحب ! آپ کے اس افسانے میں اسی نکتہ کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ھے۔ اُمید ھے کہ آپ ایسی ھی خوبصورت اور بامعنی کہانیاں لکھتے رھیں گے۔ ایک اور نکتہ : پاکستانی اور ھندوستانی ادب میں انسانی دکھ ، درد اور المیہ کا جنم برصغیر ھندوستان کی تقسیم کے حوالے سے ھوا، تاریخی ، مذھبی اور ثقافتی بٹوارے سے اس خطہ کے انسانوں نے جو دکھ جھیلے وہ لازوال تخلیقات یعنی شاعری، افسانے اور ناول کی صورت میں سامنے آئیں۔ اس موضوع پر پاکستان اور ھندوستان کے لکھاریوں نے بہت کام کیا ھے مگر افغان انقلاب، مہاجرت اور کوئٹہ کے پندرہ سالہ بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے انسان اور انسانی زندگی جس دکھ، درد اور المیہ سے دوچار ھوئی ھے اس پر کسی نے قلم نہیں اٹھایا ھے۔ یہ موضوعات تمام لکھاریوں کو دعوت تحریر دے رھی ھیں اور امید ھے کہ ان موضوعات پر بھی ھمارے لکھنے والے ضرور توجہ دیں گے۔
Manzoor Ali Jul 28, 2014 09:40pm
حسن رضا صاحب، ھمیشہ کی طرح عمدہ اور خوبصورت تحریر ھے۔ ھمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلتی نفرت کو آپ کے بہت عمدگی اور سلیس انداز میں بیان کیا ھے۔ اب تک تو مسلم اور غیر مسلم ایک دوسرے کو نجس سمجھ کر ایک برتن میں کھانا نہیں کھاتے، مگر اگر اسی رفتار سے فرقہ پرستی پھیلتی چلی گئی تو وہ دن دور نہیں جب مسلمانوں کے مختلف فرقے بھی ایک دوسرے کے ساتھ ایک برتن میں کھانے کو اتنا ھی برا سمجھیں جیسے اب وہ ھندووں کے ساتھ ایک برتن میں کھانے کو سمجھتے ھیں۔ ھم آھستہ آھستہ اک دوجے کے لئے نجس ھوتے جا رھے ھیں۔
Ali Raza Jul 29, 2014 12:02am
Zabardast Maza aa gaya samaj ka aaina dekh kar
Umer Aug 01, 2014 05:05pm
Nice article.