کاؤنٹ ڈاؤن ٹو 14 اگست

02 اگست 2014
فوٹو -- مبین انصاری / ہیرالڈ
فوٹو -- مبین انصاری / ہیرالڈ

گیا رمضان سیاسی لحاظ سے شاید پاکستان کی تاریخ کے مصروف ترین رمضانوں میں سے ایک تھا- گو کہ اس دوران وہ ایکشن دیکھنے میں نہیں آیا جیسا کہ اس کے پچھلے ہفتوں میں دکھ رہا تھا اور یہ اس مہینے کی متعین حدود کی مناسبت سے سمجھ میں بھی آتا ہے- پھر بھی کچھ حدود کو بہرحال پار کیا گیا اور اپوزیشن پارٹیز بالخصوص پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حکومت کو سانس لینے کا وقت دینے کے بجائے، پی ایم ایل-این پر اپنے پے در پے حملے جاری رکھے-

پی ٹی آئی کی جانب سے جاری کئے جانے والے ہر بیان کے جواب میں پی ایم ایل-این کے جغادریوں کی جانب سے چار بیان تو لازمی ٹہرے اور اس سے عمران خان ہی کے مقاصد کو فائدہ پہنچا- ان کی پارٹی اس مفروضے کو پہلے ہی غلط ثابت کر چکی ہے کہ پاکستان میں گرمیوں میں ہونے والی احتجاجی ریلیوں میں عوام کی شرکت کم ہی ہوتی ہے-

اب ان کی پارٹی یہ بھی ثابت کر چکی ہے کہ اگر آپ ثابت قدم رہیں تو رمضان میں بھی اس سے کہیں زیادہ سیاسی رنگ جمایا جا سکتا ہے جو کہ ہمیں عام طور پر اس مہینے ہونے والی افطار پارٹیوں میں نظر آیا کرتا تھا-

اس بات کے بھی مناسب شواہد نظر آئے ہیں کہ پی ٹی آئی کی تبدیلی کی یہ لہر اس بات تک ہی محدود نہیں کہ پارٹی نے ان پیریڈز میں سیاسی سرگرمیاں دکھائی ہیں جن میں عام طور پر سیاست نہیں ہوتی- اس بات کے اشارے ہیں کہ اس نے جو ایشوز اٹھائے ہیں ان کی گونج عوام میں بھی سنائی دے رہی ہے- ان کی حمایت تو ویسے بھی عیاں ہے اور یہ حقیقت کہ پی ٹی آئی پورے رمضان اپنا دباؤ برقرار رکھنے میں کامیاب رہی اس کی جانب سے مجوزہ چودہ اگست کو ہونے والے مارچ کو مومنٹم فراہم کر سکتا ہے-

با تدبیر وزیروں کی ٹیم کی جانب سے پی ٹی آئی کے بیانوں کے جواب میں بیان داغنے کے علاوہ اس بات کی ڈسٹربنگ رپورٹس آ رہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے چند سرکردہ لیڈروں کو اگست کے آغاز میں گرفتار کرنے کا پلان ہے تاکہ مارچ کو ناکام بنایا جا سکے- امید کی جانی چاہئے کہ حکومت ان بارہا آزمودہ ہتھکنڈوں کے ذریعے مخالفین کو کچلنے کے لئے استعمال کرنے سے گریز کرے گی-

اس کے علاوہ پی ایم ایل-این، پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کی جانب سے درپیش چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے ڈویلپمنٹ ماڈل کی بھی تشہیر زور و شور سے کر رہی ہے لیکن لگ نہیں رہا کہ اس سے کوئی فائدہ ہو رہا ہے-

حکومتی صفوں میں پھیلی افراتفری اس انسیکیورٹی کی نشاندہی کرتی ہے جو ان تمام کوششوں میں عیاں ہو رہی ہے جو حکومت پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کا مقابلے کرنے کے لئے کر رہی ہے-

پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو ناکام بنانے کے لئے ایک پلان تو یہ ہے کہ پی ایم ایل-این نے بھی یوم آزادی کو اپنا دفاعی تانہ بانہ بننے کے لئے چنا ہے- بظاہر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ یوم آزادی کو زیادہ جوش و خروش سے منا کر پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو ناکام کیا جا سکتا ہے-

یہ نہایت بنیادی اور بچکانہ بات ہے، چاہے پرچم لہرانے کے اس مظاہرے کے اس کے پیچھے مقصد، حکومت کی ریاست کو دی جانے والی عزت کا ڈھول پیٹنا ہی کیوں نہ ہو اور اس کے ساتھ ساتھ آئین کا بھی تاکہ ان "چند لوگوں" کو نیچا دکھایا جا سکے جو کہ غیر آئینی طریقوں سے اپنی شکایات کا ازالہ چاہتے ہیں-

احتجاج کے مقابلے میں خوشی منانے کا آئیڈیا پی ایم ایل-این کی اس حکمت عملی کا غماز ہے کہ پی ٹی آئی کے عوامی اجتماعات کے مقابلے میں ناچنے گانے کے پروگرام منعقد کئے جائیں- پی ایم ایل-این ایسا کر رہی ہے تاکہ عمران خان کی ریلیوں سے توجہ ہٹائی جا سکے اور اسے اس بات کا احساس تک نہیں کہ ایسا کرنے سے پی ٹی آئی کے جلسوں کا اثر بڑھ رہا ہے جن میں اس سب کے باوجود، عوام کی ایک بڑی تعداد شریک ہو رہی ہے-

اب جبکہ اس ناکام اسکیم کے اس بار بہت بڑے پیمانے پر استعمال کئے جانے کا پلان ہے اس بات میں زیادہ شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ پی ٹی آئی اور اس کے حامی اس سے بہت خوش ہوں گے کیونکہ ان کے نزدیک یہ بات کی تصدیق ہے کہ پی ایم ایل-این کتنی خوفزدہ ہے-

رمضان کے دوران کچھ عرصے کے لئے ایسا لگ رہا تھا کہ پی ایم ایل-این عمران خان کے لانگ مارچ سے نبٹنے کیلئے اپنی اپروچ تبدیل کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے- یہ وہ وقت تھا جب حکومتی وزیروں کی جانب سے عمران خان کے خلاف بیانوں کی گھن گرج تھوڑی کم ہو گئی تھی اور کچھ ایسے بیان بھی سامنے آئے تھے جن سے لگتا تھا کہ بلآخر مخاصمانہ پالیسی کے برخلاف دوسری اپروچ کو استعمال کرنے کے بارے میں سوچا جا رہا ہے-

تاہم یہ تاثر زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور وزیروں کی جانب سے بیانوں کی توپوں کا رخ ایک بار پھر مارچ کرنے والوں کے خلاف ہو گیا اور اسی دوران حکومت کا نام نہاد ماسٹر اسٹروک بھی سامنے آیا، یعنی اسلام آباد کی حفاظت کے لئے آرٹیکل 245 کے تحت حکومت کا فوج کو بلانا جو کہ لانگ مارچ کی منزل ہے-

ہو سکتا ہے کہ عمران خان کو --جن کے بارے میں بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ ان کو نادیدہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے-- فوج کے مقابلے پر لانے کی حکمت عملی سیاسی طور پر کسی حد تک درست بھی ہو- تاہم یہ جب ہو گا تب ہو گا- اس وقت تو لگ یہی رہا ہے کہ اپوزیشن وزیر داخلہ کے مقابلے میں چند پوائنٹس جیت ہی رہی ہے جو کہ اپنی ظاہری پریشانی اور اپنے ظاہری سپاٹ چہرے کے ساتھ اس بے ثمر کوشش میں جٹے ہوئے ہیں کہ اپنے ارد گرد لوگوں کو اس بات کا یقین دلا سکیں کہ فوج کو بلانے کے فیصلے کا پی ٹی آئی سے کچھ لینا دینا نہیں-

چوہدری نثار علی خان کے چاہنے والے یہ چاہ رہے ہوں گے کہ وہ اپنی تعطیلات مزید چند ہفتے بڑھا لیتے- یہ وہ واحد طریقہ تھا جس سے وہ اپنے خلاف ہونے والی تنقید سے بچ سکتے تھے جو ان کی ان عجیب و غریب توجیہات پر کی جا رہی ہے جو وہ اپنے عہدے پر پچھلے سال سے براجمان ہونے کے بعد سے پیش کرتے آ رہے ہیں-

چوہدری نثار چاہتے ہیں کہ لوگ اس بات کا یقین کریں کہ دارالحکومت کو فوج کی حفاظت میں دینے کا فیصلہ آپریشن ضرب عضب کے آغاز پر لیا گیا تھا- اگر اس بات میں تھوڑی سی بھی سمجھ میں آنے والی بات تھی بھی تو اس فیصلے سے عوام کو آگاہ کرنے والی تاخیر نے اسے ردی میں ڈال دیا ہے اور اپنے جوش خطابت میں وزیر موصوف یہ بات بھی بھول گئے کہ اس طرح اس آپریشن کے حوالے سے وہ یہ سب سے خطرناک اور پریشانی والی بات ابھار رہے ہیں کہ کس طرح اس آپریشن کے نتیجے میں یہ جنگ پاکستان کے گلی کوچوں میں پھیل سکتی ہے اور اسی وجہ سے یہ ضرورت پیش آئی کہ اسلام آباد کی حفاظت کے لئے فوج کو طلب کیا جائے-

اگر اس تاخیر سے کی جانے والی وضاحت کے نتیجے میں کچھ ہوا ہے تو صرف یہ کہ اس نے اس تاثر کو مزید تقویت دی ہے کہ وزارت داخلہ اور ان کی حکومت ملک کی سلامتی سے متعلقہ ایشوز پر صلاح و مشورہ کرنے میں تساہل سے کام لے رہی ہے- اور اگر وہ فیصلے کی ٹائمنگ کے حوالے سے سچ بول رہے ہیں تو منطقی طور پر آرٹیکل 245 کا نفاز وزیرستان میں آپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی فوری طور پر کر دینا چاہئے تھا- اس کا اعلان اتنی تاخیر سے ہوا کہ لوگوں کے لئے اسے پی ٹی آئی کے لانگ مارچ سے اسے علیحدہ کر کے دیکھنا مشکل ہے-

انگلش میں پڑھیں


لکھاری لاہور میں ڈان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر ہیں-

ترجمہ: شعیب بن جمیل

تبصرے (2) بند ہیں

aisha Aug 03, 2014 01:29am
Very nice
Nadeem Aug 06, 2014 10:30am
Imran khan has lost his mental balance