اسلام آباد: پیپلزپارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے پیر کے روز ٹیلی فون کال کے ذریعے مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو اس بات پر قائل کرنے کی ناکام کوشش کی کہ وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کی ریلیوں سے دور رہیں۔

تاہم چوہدری شجاعت نے زرداری کی دلائل کو ماننے سے اور ریلیوں میں شرکت کے اپنے ارادے سے دستبردار ہونے سے انکار کردیا۔ اگرچہ انہوں نے ملک کو موجودہ صورتحال سے باہر نکالنے کے لیے دہشت گردوں کے خلاف فوجی آپریشن کی مکمل حمایت کا مطالبہ کیا۔

سابق صدر زرداری نے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے صدر اسفندیار ولی خان کو بھی اسی طرح کی فون کال کی۔

یاد رہے کہ اے این پی اور مسلم لیگ ق پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت کا حصہ تھی۔

پیپلزپارٹی کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ یہ فون کالز لندن سے کی گئی تھیں۔ ’’زرادری کا خیال ہے کہ جمہوریت اور آئین کے دفاع کے لیے دیگر سیاسی قوتوں کو آگے بڑھنا چاہیٔے۔‘‘

ٹیلی فون پر اپنی بات چیت کے دوران انہوں نے مسلم لیگ ق اور اے این پی کے سربراہوں کے ساتھ موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلۂ خیال کیا۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ’’زرداری ملک میں رونما ہونے والے واقعات سے خود کو باخبر رکھ رہے ہیں اور بعض حالیہ پیش رفت پر انہیں تشویش ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے جمہوریت اور آئین کی برتری کے تحفظ کا عہد کر رکھا ہے۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے انتخابی اصلاحات اور دیگر غیر واضح معاملات پر اپنےمطالبات کی حمایت کے لیے چودہ اگست کو لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کی کال دے رکھی ہے۔

پیپلزپارٹی کے اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ سابق صدر زرداری نے چوہدری شجاعت سے بارہ منٹ تک بات کی اور ان سے کہا کہ وہ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے انقلابی مارچ میں شرکت نہ کریں۔

اس مارچ کی تاریخ کا شاید دس اگست کو اعلان کیا جائے گا، اس دن پی اے ٹی اپنے کارکنوں کی ہلاکتوں کے سوگ میں ’یومِ شہداء‘ منائے گی۔

یاد رہے کہ سترہ جون کو ماڈل ٹاؤن میں پولیس کی ایک کارروائی کے دوران پی ٹی اے کے کارکنان ہلاک ہوگئے تھے۔ پولیس ڈاکٹر طاہرالقادری کے گھر کے باہر رکاوٹیں دور کرنے کے لیے وہاں پہنچی تھی۔

دوسری جانب مسلم لیگ ق کےترجمان کامل علی آغا نے اس بات کی تردید کی ہے کہ زرداری نے چوہدری شجاعت کو پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی ریلیوں سے دور رہنے کے لیے کہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ق پی اے ٹی کے احتجاج میں اس کی حمایت کرے گی۔

کامل علی آغا کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کے سربراہ نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ صورتحال میں پوری قوم کو فوج اور شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف وسیع پیمانے پر جاری آپریشن ضربِ عضب کی حمایت کرنی چاہیٔے۔ چوہدری شجاعت اور آصف علی زرداری نے اتفاق کیا کہ قومی سلامتی کو خطرہ نہیں ہونا چاہیٔے۔

حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت وفاقی دارالحکومت میں تین مہینوں کے لیے فوج کو طلب کرکے بحث و مباحثے کا دروازہ کھول دیا ہے۔ یہ اقدام بظاہر پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں لانگ مارچ یا طویل مدت کے دھرنے کو روکنے کے لیے معلوم ہوتا ہے۔

اے این پی کے نائب صدر حاجی عدیل سابق صدر زرداری کا مشورہ موصول ہونے سے قبل ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی پارٹی نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ کسی بھی حکومت مخالف مارچ کا حصہ نہیں بنے گی۔

انہوں نے کہا کہ مارچ کا انعقاد کرنا ایک سیاسی جماعت کا حق ہے، لیکن اس کو پُرامن اور انتشار پیدا کرنے کے بجائے مثبت مقاصد کے لیے ہونا چاہیٔے۔

اے این پی کے رہنما نے کہا ’’ایک طویل مارچ کا انعقاد عمران خان کا حق ہے، لیکن اگر اس موقع پر کسی بھی قسم کا ناخوشگوار واقعہ رونما ہوا یا ایک واحد فرد بھی زخمی یا ہلاک ہوا تو اس کے لیے پھر وہ ذمہ دار ہوں گے۔‘‘

اسلام آباد میں فوجی کی تعیناتی کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی اس غیر ضروری اقدام کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا ’’اس طرز کے ہنگامی اقدامات کسی اندرونی خطرے کا سامنا کرنے کے لیے نہیں بلکہ جنگ کی صورت میں یا بیرونی جارحیت کی صورت میں اُٹھائے جاتے ہیں۔‘‘

تبصرے (1) بند ہیں

راضیہ سید Aug 05, 2014 12:06pm
دنیا بھر میں ترقی ہوتی ہے حتی کہ کیلنڈر بھی بدل جاتے ہیں ، وقت بیت جاتاہے لیکن ہمارے سیاستدانوں کا پسندیدہ مہینہ مارچ ہے ، جب دیکھو لانگ مارچ ، حد ہو گئی بھئی کبھی لوڈشیڈنگ ، گرمی جون ، جولائی بھی منائیں یا وہ صرف عوامی تہوار ہے ، ہا ہا ، اب عمران خان ہیں تو وہ انتخابات کے بعد جو ایک نیا منا چنا سا پاکستان جو انھوں نے بنایا تھا اسکی شاید تشکیل نو کرنا چاہ رہے ہیں ، حیرت تو مجھے زرداری صاحب پر ہو رہی ہے جو مسٹر روٹی شوٹی کھا کہ جانڑاں اور مٹی پائوو کو کہہ رہے ہیں کہ قادری اور عمران سے بچیو ۔۔۔چوہدری شجاعت اصل معنوں میں سیاستدان ہیں انھیں معلوم ہے کہ کب کس کس ضدی بچے کو منانا ہے اور کیسے کسیے انھیں طیاروں اور کینٹینرز سے اتروانا ہے ، سیاست کے ابا ہیں وہ ، زرداری صاحب آپ ابھی ان سے کچھ سکھیں کہ کس طرح مطلب نکلوایا جاتا ہے اور کس طرح کسی کو سائیڈ لائن کیا جاتا ہے ، یہ دائو ابھی آپ کو چوہدری صاحب سے سیکھنا ہوں گے ، باقی رہے نواز شریف صاحب وہ پرائم منسٹر ہو کر بھی نہ تین میں ہین نہ تیرہ میں ان کی اپنے اتنے اعلی پارٹی رکن سے مخاصمت چل رہی ہے لیکن انھیں احساس ہی نہیں ، دونوں بھائیوں کو اگر فکر ہے تو اتفاق فائونڈری ، رائے ونڈ محل ، اور عوام کو پریشان کرنے کی ۔۔۔۔۔اب ایک مظاہرہ ہو گا دس اگست ایک تھیٹر چودہ اگست کو لگے گا ، عوام بیچاروں کا جو روزگار خراب ہوگا ، جو حالات بگڑیں گے وہ الگ لیکن کوئی کسی کی پکار سننے کے لئے نہیں ہوگا ، کہتے ہیں ناں کہ ووٹ کا استعمال سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے ورنہ ویسے حکمران ہی ملتے ہیں جیسے جنگل میں بندر ، جو درختوں پر ہی اچحل کود کرتا رہا اور جب لوگوں کی جان چلی گئی تو