عقیدت مند 2009ء سے بری امامؒ کے عرس کے منتظر

اپ ڈیٹ 05 اگست 2014
مزار پر دہشت گرد حملے میں ہلاکتوں کے بعد 2009ء سے سیکیورٹی خدشات کی بناء پر اب تک سالانہ عرس کی تقریبات معطل ہیں۔ عقیدت مند خاردار تاروں سے گھرے علاقے کے باہر سے ہی فاتحہ خوانی کررہے ہیں۔ —. فوٹو وہائٹ اسٹار
مزار پر دہشت گرد حملے میں ہلاکتوں کے بعد 2009ء سے سیکیورٹی خدشات کی بناء پر اب تک سالانہ عرس کی تقریبات معطل ہیں۔ عقیدت مند خاردار تاروں سے گھرے علاقے کے باہر سے ہی فاتحہ خوانی کررہے ہیں۔ —. فوٹو وہائٹ اسٹار

حمیدہ جمیل اسلام آباد میں بری امامؒ کے سالانہ عرس کی یادوں کو دہرارہی تھیں، انہوں نے کہا ’’ہم جب نوجوان تھے تو یہاں بھاگ کر آجاتے تھے اور ہماری ماں کو بھی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ ہم کہاں گئے ہیں۔ یہاں کی فضامیں گونجنے والی ڈھول کی تھاپ اور قوالیاں ہم سنتے تھے، بچے قہقہے لگاتے تھے اور عقیدت مند دعائیں مانگتے تھے۔ اب ہمیں یہاں ایسا کچھ نہیں سنائی دیتا۔‘‘

ایک چارپائی پر اپنی بہن فرزانہ امیر اور بھائی محمد شوکت کے ساتھ بیٹھی ہوئی حمیدہ نے واضح کیا کہ یہاں کی فضا میں ایک توانائی سی پائی جاتی ہے۔ یہ تینوں بہن بھائی اس مزار سے دس منٹ پیدل کے فاصلے پر رہتے ہیں، وہ اس کالونی میں اپنے بچپن سے رہتے چلے آرہے ہیں۔

کسی بزرگ کے یومِ وفات کو یومِ سوگ کے بجائے عرس کے عنوان سے منایا جاتا ہے،جو روحانی اور دنیاوی سرگرمیوں کا مرکب ہوتا ہے۔

مئی 2005ء کے دوران یہ مزار ایک دہشت گرد حملے کا نشانہ بنا تھا، جس میں بیس افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔

یہ حملہ اس احاطے کے اندر اس وقت ہوا، جب وہاں پر عرس کی تقریبات کے سلسلے میں ایک مذہبی اجتماع منعقد ہورہا تھا۔

اس سال مئی میں پولیس نے مزار سے دھماکا خیز مواد برآمد کرکے دہشت گردی کے خطرے کو ناکام بنایا تھا۔ سالانہ عرس کی تقریبات 2009ء سے معطل ہیں، جس کا بنیادی سبب سیکیورٹی کے خدشات ہیں۔

حمیدہ جمیل نے کہا ’’میں پچھلے مہینے مزار پر گئی تھی، تو اس وقت پولیس نے کہا تھا کہ یہ سترہ جولائی کو کھول دیا جائے گا، لیکن یہ اب تک بند ہے۔‘‘

ان کے بھائی شوکت نے کہا ’’ہمارے اردگرد جو باتیں گردش میں ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس مزار پر انجینئرز بزرگ کی قبر کو بلند کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔‘‘

اس مہینے کی ابتداء میں جب میں اس مزار پر گیا تھا، تو اس وقت خاردار تاروں سے اس کا احاطہ کیا ہوا تھا اور کئی پولیس اہلکار سائے میں بیٹھے ہوئے تھے۔

مجھ سے چند منٹ کی پوچھ گچھ کے بعد وہ مجھے خاردار تاروں کے علاقے کے اندر لے گئے لیکن مجھے مزار کی عمارت کے اندر داخل نہیں ہونے دیا۔.

ان پولیس اہلکاروں کے انچارج اسسٹنٹ سب انسپکٹر سلیم رضا کا ردّعمل حیران کن تھا، لیکن جب اس کو معلوم ہوا کہ میرا یہاں خیرمقدم کیا گیا تھا تو اس نے ناشائستگی سے کہا کہ یہاں سے نکل جاؤ۔ وہ حیلے باز اور جلد چڑچڑے پن کا شکار ہوجانے والا تھا، اس نے کہا کہ عرس کی تقریبات کے دوبارہ آغاز کے کسی بھی ارادے کا انحصار ملک کی سیکیورٹی کی صورتحال پر ہے اور فی الحال اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

چند ہفتے پہلے جب میں اس مزار پر آیا تھا تو اس وقت پولیس اہلکاروں نے کہا تھا کہ مزار کو تزئین و آرائش کے لیے بند کیا گیا ہے اور مزار کو عید پر عوام کے لیے کھول دیا جائے گا۔

حمیدہ جمیل نے کہا ’’بم دھماکے کے بعد یہ مزار بند کردیا گیا تھا اور یہاں پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد نے اس علاقے کو سیل کردیا تھا۔وہ ہر ایک کی شناخت کی جانچ پڑتال کررہے تھے۔‘‘

دھماکے کے دن کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ کئی سالوں پہلے جب ان کی کالونی میں دھماکے کے ساتھ خون کے چھینٹے اور ملبے کے ٹکڑے پھیل گئے تھے۔ ایوانِ صدر اور سفارتی علاقے سے قریب ہونے کی وجہ سے اب اس پورے علاقے کو ریڈ زون قرار دے دیا گیا ہے۔ یعنی یہ بھی دہشت گردی کے خطرے سے دوچار ہے۔ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کم ہوگئی ہے اور کئی پولیس اہلکار تعینات رہتے ہیں۔

حمیدہ جمیل نے بتایا ’’ان دنوں ہمارے رشتے دار آکر ہمارے گھر قیام کرتے تھے اور ہم انہیں عرس میں شرکت کے لیے لے جاتے تھے، لیکن اب زیادہ تر یہاں آنے سے خوفزدہ ہیں۔ اب عقیدت مند مزار کے باہر ہی کھڑے ہوکر فاتحہ خوانی اور دعائیں مانگ لیتے ہیں۔

مزار کے باہر سڑک کے کنارے کھڑے پھیری والوں کا کہنا ہے کہ ہر روز ہی عقیدت مند پورے ملک کے مختلف شہروں سے یہاں آتے ہیں۔ عرس کے دنوں میں لوگ یہاں ہندوستان اور انگلینڈ سے آئیں گے۔

سید احمد پچھلے پندرہ برسوں سے یہاں مزار کے باہر ایک چھوٹی سی دکان چلارہے ہیں، جس میں وہ سونے اور چاندی کے تاروں سے کاڑھی گئی عربی آیات سے مزین مزار پر چڑھائی جانے والی چادریں اور کھانے کی روایتی اشیاء فروخت کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’لوگ یہاں آکر نیاز تقسیم کرتے ہیں اور دعا مانگتے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا ’’لوگ یہاں صبح سے شام تک آتے رہتے ہیں اور ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا اس سال عرس منایا جائے گا۔‘‘

وہ عرس کی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے کافی بے چین تھے، اس لیے کہ یہ ناصرف ان کے کاروبار کے لیے بہتر ہوگا اور مزار کے لیے آمدنی پیدا ہوگی، بلکہ اس لیے بھی کہ پانچ روزہ عرس کی تقریبات کے دوران صوفیانہ ماحول برقرار رہتا ہے۔

اس دوران اردگرد روشنی کے لیے مٹی کے تیل کے لیمپس کا استعمال کیا جاتا ہے، ملحقہ عمارتوں کی بھی بجلی کے قمقموں کے ساتھ شاندار سجاوٹ کی جاتی ہے اور پورا قصبہ دعاؤں اور لوگوں کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔

باوجود اس کے کہ عرس کی تقریبات کے دوران جشن کا سا ماحول اس علاقے میں غالب رہتا ہے، تاہم حمیدہ اور ان کے بہن بھائی کہتے ہیں کہ وہ نہیں چاہتے کہ عرس کی تقریبات دوبارہ شروع ہوں، اس لیے کہ مشکوک سرگرمیاں بھی اس دوران جنم لینے لگتی ہیں۔

شوکت نے کہا ’’اس دوران ہمارا علاقہ متاثر ہوگا، یہاں ان دنوں چوریوں اور بچوں کے اغوا کا سب سے زیادہ خطرہ رہتا ہے۔‘‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ منشیات کے عادی افراد اس علاقے میں گھس آتے ہیں، اور وہ اپنے خاندان کی خواتین کو باہر لے جانے میں اطمینان محسوس نہیں کرتے۔ انہوں نے مزید یہ کہ ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں کہ بچوں تک کو ہلاک کردیا گیا تھا، اسی لیے خواتین کو اکیلا چھوڑا نہیں جاسکتا۔

ان کی بہن نے کہا ’’پچھلے دھماکے کے بعد بہت سی چیزیں تبدیل ہوچکی ہیں۔ معمولات بدل گئے ہیں۔ ہم یہاں صرف امن چاہتے ہیں، جشن کے بجائے ہم محفوظ ہونا چاہیں گے۔‘‘

تبصرے (0) بند ہیں