سوشل میڈیا پر دہشتگردوں کی نگرانی کس کا ذمہ؟

07 اگست 2014
پروپیگنڈا کی میڈیا کوریج کے بارے میں کیا پالیسی ہونی چاہیے اور دہشتگردوں کے پر امن لیکچرز کے بارے میں کیا کرنا چاہیے؟
پروپیگنڈا کی میڈیا کوریج کے بارے میں کیا پالیسی ہونی چاہیے اور دہشتگردوں کے پر امن لیکچرز کے بارے میں کیا کرنا چاہیے؟

"لوگو! قبریں تو ابھی خالی ہیں، انہیں بھرنے میں ہماری مدد کون کرے گا؟"

بیس سال پہلے روانڈا کے ایک ریڈیو چینل سے اٹھنے والی اس پکار کا جواب انسانی تاریخ کے بد ترین نسلی فسادات کی صورت میں دیا گیا۔


آج کے عراق میں بھی ماضی میں خودمختار رہنے والی اقلیت، اور طویل عرصے تک مغلوب رہنے والی اکثریت کے درمیان ایسا ہی المیہ جنم لے رہا ہے۔ اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اس خونی تصادم کو جاری رکھنے کے لئے بھرپور اپپلیں کی جارہی ہیں۔ روانڈا کے ریڈیو سے بلند ہونے والی اپیل اور اس ک بعد جنم لینے والے حالات کے برعکس دنیا کے پاس اس دفعہ موقع ہے کے ایسے قتل عام کو روک سکے۔

داعش کے سنی جنگجو جو اس وقت عراق کی شیعہ اکثریت کے خلاف مہلک لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں، انٹرنیٹ کے استعمال میں مہارت رکھتے ہیں۔ داعش کے فیس بک، ٹویٹر، اور یو ٹیوب پر سینکڑوں اکاؤنٹس ہیں، جہاں سے وہ مسلمانوں کو ہتھیار اٹھانے اور لڑنے کے لئے اکساتے ہیں۔ "ہتھیار اٹھاؤ، اٹھاؤ ہتھیار، او اسلامی خلافت کے مجاہدو!" داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کا یہ خطبہ، اور انگریزی میں بنائی گئی دیگر پروپیگنڈا فلمیں مغربی ممالک میں رہنے والے انتہا پسند لوگوں کو کافی متاثر کرتی ہیں، اور یہی لوگ اس تنظیم کا سب سے خطرناک اثاثہ ہیں۔ خاص طور پر داعش کے مجاہدوں کی قتل و غارت سے بھرپور تصاویر اور ویڈیوز کو انٹرنیٹ پر نشر کرتے وقت نوجوانوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے، اور اس قتل و غارت کو وڈیو گیمز کی طرز پر "کال آف ڈیوٹی" یا فرض کی پکار جیسے نام دیے جاتے ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا پر کس طرح کے مواد کو رہنے دینا چاہیے، اور کس قسم کے مواد کو ہٹا دینا چاہیے، ان ویب سائٹس کے عہدے داران اس بارے میں ایک مختلف راۓ رکھتے ہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سینئر ایگزیکٹو نے بتایا؛

"ایک انسان کے نزدیک اگر کوئی شخص دہشتگرد ہے، تو کسی اور کے نزدیک وہ ہیرو بھی ہو سکتا ہے جو کسی اچھے مقصد کے لئے لڑ رہا ہے"۔

یہی وجہ ہے کے ٹویٹر پر داعش کے اکاؤنٹس اکثر کئی ہفتوں تک باقی رہتے ہیں، اور ہٹا دیے جانے سے پہلے ہزاروں کی تعداد میں فالوورز اکٹھے کر لیتے ہیں۔ اگرچہ کے یو ٹیوب سے کچھ پروپیگنڈا ویڈیوز کو "دہشت ناک اور کراہت آمیز" ہونے کی وجہ سے یو ٹیوب کی پالیسی کے تحت ہٹا دیا گیا ہے، پر داعش کی لاتعداد دوسری ویڈیوز اب بھی یو ٹیوب پر موجود ہیں، جن میں ابوبکر البغدادی کا ایک تازہ خطبہ بھی شامل ہے، جو کے داعش سے تعلّق کا دعویٰ کرنے والے ایک اکاؤنٹ سے نشر کیا گیا ہے۔

آزادی اظہار کے حوالے سے یہاں کچھ جائز سوالات بھی جنم لیتے ہیں جیسے پروپیگنڈا کی میڈیا کوریج کے بارے میں کیا پالیسی ہونی چاہیے یا انہی دہشتگردوں کے پر امن لیکچرز کے بارے میں کیا کرنا چاہیے؟

پر اس طرح کے مشتبہ مواد کو بنیاد بناتے ہوئے قتل و غارت پر اکسانے والے مواد کو قانون کے نفاز سے نہیں بچایا جا سکتا، وہ بھی تب جب شاید سوشل میڈیا کمپنیاں قتل و غارت کے لیے اکسانے پر پابندی لگا چکی ہیں۔

ایوان کوہلمین، جو این بی سی نیوز اور فلیش پواینٹ پارٹنرز کے دہشتگردی کی روک تھام کے تجزیہ نگار ہیں، کا کہنا تھا کہ اگرچہ آزادی اظہار کے حوالے سے کچھ خدشات ہیں، لیکن یو ٹیوب پر موجود زیادہ تر مواد کے بارے میں یہ خدشات صحیح نہیں۔ انہوں نے کہا کے تجاویز تمام صحافتی رپورٹس یا ویڈیوز کو ہٹانے کے لئے نہیں، بلکہ صرف ان ویڈیوز کو ہٹانے کے لئے ہیں، جن میں قتل و غارت یا دکھائی جاتی ہے، یا اس پر اکسایا جاتا ہے۔

پر ایسے مواد کو ہٹانے کے حوالے سے ایک اور اعتراض ہے، جو قابل غور ہے، اور وہ یہ کے سوشل میڈیا پر ایسا مواد اتنی بڑی تعداد میں موجود ہے، کے اسے مانیٹر کرنا اور مکمّل طور پر ہٹا دینا ناممکن لگتا ہے۔ ایک مشہور سماجی ویب سائٹ کے ایگزیکٹو نے مجھ سے کہا، کہ کمپنی اگر ایک ویڈیو ہٹاتی ہے، تو وہی ویڈیو کسی اور جگہ دوبارہ پوسٹ کر دی جاتی ہے۔ پر اس مواد کی نگرانی اورہٹانے میں ناکامی کو اس طرح عذر بنانا ٹھیک نہیں جیسا روانڈا میں بیس سال پہلے تب بنایا گیا تھا، جب امریکی حکومت نے ریڈیو جام کرنے والی ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے قانونی، مالیاتی، اور تکنیکی عذر پیش کئے۔ امریکی حکومت کا کہنا تھا کے ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال قانونی طور پر الجھا ہوا، بہت مہنگا، اور عملی طور پر ناممکن ہے۔ اور اس عذر نے دہشتگردوں کو اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کے لئے راہ فراہم کی۔

لیکن پریشان کرنے والی بات یہ ہے کے سوشل میڈیا کمپنیوں کے پاس ایسے طریقہ کار موجود ہیں، جن سے قانون کی خلاف ورزی کرنے والے مواد کا پتا لگانا اور اسے ہٹانا ممکن ہے۔

تمام بڑی سوشل میڈیا کمپنیاں ایسے سافٹ ویئر پروگرام استعمال کرتی ہیں، جو قابل اعتراض و غیر قانونی مواد، جیسے بچوں کی پورنوگرافی وغیرہ، کو خود بخود ٹریس کر کے ویب سائٹ پر نشر ہونے سے روک دیتی ہیں۔ یو ٹیوب کے پاس بھی ایسی ہی ٹیکنالوجی ہے، جس کی مدد سے کاپی رائٹ مواد کو ویب سائٹ پر نشر ہونے سے روکنے میں مدد ملتی ہے۔

تو پھر اس طرح کی تکنیکوں سے کھلم کھلا سر قلم کرنے والی یا دہشتگردی کا پرچار کرنے والی ویڈیوز کو کیوں نہیں روکا جاتا؟

فیس بک، ٹویٹر، اور یو ٹیوب، سبھی نے شائع ہونے والے مواد کی خود نگرانی کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ اس کے بجائے یہ کمپنیاں اپنے صارفین پر زور دیتی ہیں کے وہ قبل اعتراض مواد کمپنی کو رپورٹ کریں۔ لیکن اتنی بڑی تعداد میں پوسٹ ہونے والے مواد پر نظر رکھنا صارفین کے بس کی بات نہیں جبکہ کمپنیز چاہتی ہیں کے لوگ خود بچوں کی پورنوگرافی وغیرہ کا پتا لگائیں۔

ایک سوشل میڈیا کمپنی میں مواد ہٹانے سے متعلق پالیسی بنانے والے اشخاص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کے پالیسی بنیادوں پر کمپنی خود سے ایسے مواد کی نگرانی نہیں کر سکتی۔ساتھ ہی دوسرے شخص نے کہا کے جب بھی ہم کسی مواد کی نگرانی خود کرنے لگتے ہیں، تو میوزک کمپنیاں ہم سے ہر کاپی رائٹ ویڈیو (گانے وغیرہ) ہٹانے کا مطالبہ کرتی ہیں۔

بہرحال، ماضی میں دیکھا جائے، تو دنیا ایسے ہر المیے کے بعد "پھر کبھی نہیں" کا نعرہ بلند کرتی ہے، لیکن پھر بھی روانڈا میں ہونے والے قتل عام کو روکنے میں ناکام رہی۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفر سمانتھا پاور نے بھی یہی کہا تھا، کہ امریکی حکومت نے عین اس وقت ٹیکنالوجی کے استعمال سے انکار کر دیا، جب وہ اسکا استعمال کر سکتی تھی۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق اگر روانڈا میں ریڈیو نشریات کا سلسلہ جام کر دیا جاتا، تو ہزاروں انسانی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔

بل کلنٹن انتظامیہ کے ایک افسر، جان پرینڈرگاست، جنہوں نے سالوں تک روانڈا کے حالات کا مطالعہ کیا ہے، کا کہنا تھا کے داعش کی تشدد پر اکسانے والی مہم بلکل روانڈا میں ہونے والی مہم جیسی ہے۔ تب کی طرح آج بھی فرقہ وارانہ نفرت پھیلانا فوراً ہی وسیع پیمانے پر قتل عام کی وجہ بن سکتا ہے۔ تب کی طرح آج بھی نفرت انگیز اور قتل پر اکسانے والے بیانات کو روکنا شاید پوری طرح کارگر ثابت نہ ہو، پر اس سے تھوڑی مدد ضرور مل سکتی ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں پر اس حوالے سے اک بہت بڑی اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اور امریکی قانون کو بھی اس وقت جب انسانی جانیں داؤ پر لگی ہوں، قانونی تقاضوں کی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ ورنہ ہم کچھ سالوں بعد عراق کے معاملے میں بھی یہی کہیں گے، کہ "بس اب نہیں"۔


بشکریہ واشنگٹن پوسٹ

یہ مضمون ڈان اخبار میں 13 جولائی 2014 کو شائع ہوا

تبصرے (0) بند ہیں