آپریشن ضربِ عضب میں توسیع کا امکان

اپ ڈیٹ 09 اگست 2014
پاکستانی فوج کے جوان شمالی وزیرستان ایجنسی کے مرکزی علاقے میرانشاہ کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے بعد ایک بازار میں گشت کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
پاکستانی فوج کے جوان شمالی وزیرستان ایجنسی کے مرکزی علاقے میرانشاہ کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے بعد ایک بازار میں گشت کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
پاک فوج کے جوان عسکریت پسندوں سے علاقہ خالی کروانے کے بعد میرانشاہ کے ایک بازار میں گشت کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
پاک فوج کے جوان عسکریت پسندوں سے علاقہ خالی کروانے کے بعد میرانشاہ کے ایک بازار میں گشت کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
پاک فوج کے جوان ایک بکتربند گاڑی پر سوار میرانشاہ کے علاقے میں چوکس کھڑے ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز
پاک فوج کے جوان ایک بکتربند گاڑی پر سوار میرانشاہ کے علاقے میں چوکس کھڑے ہیں۔ —. فوٹو رائٹرز

پشاور: شمالی وزیرستان ایجنسی کے شورش زدہ علاقے میرعلی اور شاول سب ڈویژن کے قبائلی عوام سے حکومت نے کہا ہے کہ وہ اپنے علاقے کو خالی کردیں۔ یہ اعلان دیگرعلاقوں میں زمینی کارروائیوں کی توسیع کی اطلاعات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

رزمک، اسپن وام، شیوا، شاول، ایدک اور اس ایجنسی کے دیگر علاقوں کو پندرہ جون کو شروع ہونے والے آپریشن ضربِ عضب سے پہلے انخلاء سے مستثنٰی قرار دیا گیا تھا۔

حکام نے چند روز قبل شاول کے عوام کو نقلِ مکانی کا نوٹس جاری کیا تھا۔ ان سے کہا گیا تھا کہ وہ بنوں منتقل ہوجائیں۔

حکام کے مطابق سیاسی انتظامیہ نے میرعلی سے مغرب میں سات کلومیٹر کے فاصلے پر ایدک کے علاقے میں تقریباً چار ہزا خاندانوں سے سیاسی انتظامیہ نے ہفتے کے بعد انہیں علاقہ خالی کرنے کے لیے کہا تھا۔

اس نوٹس سے اس علاقے کے لوگوں میں اشتعال پھیل گیا ہے اور انہوں نے اس حکم کو ماننے سے انکار کردیا ہے۔

فوجی آپریشن کی وجہ سے میرانشاہ اور میرعلی کے باون ہزار سے زیادہ خاندان بنوں منتقل ہونے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ ابتداء میں بانوے ہزار سے زیادہ کی تعداد میں خاندانوں کا بطور بے گھر افراد کے اندارج کیا گیا تھا، لیکن نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے تصدیق کے بعد ان کی تعداد کم ہوگئی تھی۔

فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ میرعلی اور میرانشاہ اور ملحقہ علاقوں کو عسکریت پسندوں سے خالی کروالیا گیا ہے، اور پانچ سو سے زیادہ کی تعداد میں مقامی اور غیرملکی دہشت گرد ہلاک کردیے گئے ہیں۔

پاک فضائیہ کے جنگی طیارے شوال میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر حملے کررہے ہیں، جہاں اطلاعات کے مطابق سینکڑوں مقامی اور غیرملی دہشت گرد میرانشاہ میں آپریشن کے آغاز کے بعد منتقل ہوگئے تھے۔

بنوں کے ڈپٹی کمشنر آفس کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ افغان سرحد سے نزدیک شوال کے پہاڑی علاقے سے شہریوں کی نقل مکانی جمعہ کے شروع ہوگی۔

وہ بنوں کے سرحدی علاقے سیدگئی چیک پوسٹ پر رجسٹریشن کے لیے پہنچیں گے، جو نقد اور غذائی اشیاء کی امداد کے حصول کے لیے لازمی ہے۔

فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (ایف ڈی ایم اے) نے اس چیک پوسٹ پر عملے کی تعیناتی کردی ہے، جہاں توقع ہے کہ تقریباً چار ہزار خاندان ایدک سے آئیں گے۔

ایف ڈی ایم اے کے ایک اہلکار نے کہا کہ اس چیک پوسٹ پر نقل مکانی کرنے والے افراد کی رجسٹریشن کے ساتھ پکے ہوئے کھانے اور پانی کی فراہمی اور موبائل سم کارڈ کی تقسیم کے انتظامات کرلیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم بے گھر افراد کی اس نئی آمد سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

ذرائع کے مطابق سیاسی حکام نے بدھ کی رات کو ایدک کے شہریوں کو ایک نوٹس جاری کیا تھا، جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنا سامان باندھ لیں۔

ایدک کے شہریوں نے حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اپنے عہد سے پلٹ گئی ہے۔ جمعہ کے روز قبائلی عمائدین کا ایک جرگہ منعقد ہوگا، جس میں علاقہ خالی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

ایک بزرگ مولوی محمد عالم نے ڈان کو بتایا کہ آپریشن سے پہلے پشاور کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل خالد ربانی اور جنرل آفیسر کمانڈنگ نے انہیں یقین دلایا تھا کہ ان سے علاقہ خالی کرنے کے لیے نہیں کہا جائے گا۔

اس نوٹس سے یہاں کے رہائشیوں کے درمیان خوف پھیل گیا ہے، انہوں نے کہا کہ ’’لوگوں کو یہ فیصلہ قبول نہیں ہے اور وہ اپنے گھروں کو نہیں چھوڑیں گے۔‘‘

مولوی محمد عالم نے حکام پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا، جس کے تحت کور کمانڈر نے لوگوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ان کے علاقے کی حفاظت کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ نقلِ مکانی کے لیے کوئی جواز نہیں تھا، انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت نے ایدک کے باشندوں کے لیے راشن اور دیگر بنیادی ضروریات کے سامان کی نقل و حمل کی اجازت دی تھی،اور خوراک سے لدے ہوئے ٹرکوں کے دو قافلے حال ہی میں اس گاؤں میں پہنچے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں