منصوبے کے تحت ’سونامی‘ چودہ اگست کو دارالحکومت سے ٹکرائے گا

اپ ڈیٹ 11 اگست 2014
پی ٹی آئی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس کے دوران پارٹی کے چیئرمین عمران خان اراکین سے خطاب کررہے ہیں۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا
پی ٹی آئی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس کے دوران پارٹی کے چیئرمین عمران خان اراکین سے خطاب کررہے ہیں۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا

اسلام آباد: اس مرتبہ یومِ آزادی اب تک کی تاریخ میں واقعات سے بھرپور دن ثابت ہوسکتا ہے، اس لیے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پارٹی کل بروز اتوار اپنے آزادی مارچ کے منصوبے پر عملدرآمد کے حوالے سے پُرعزم ہے۔

دارالحکومت میں منعقدہ پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے ایک اجلاس کے دوران عمران خان نے شدت سے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ ان کی جماعت پس منظر میں حکومت کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہے اور مارچ کی کال واپس لی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اپنے مذاکرات نہ کرنے کے اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور یہ واضح کیا کہ صرف چودہ اگست کا مظاہرہ ہی واحد چیز ہے جو ان کے ذہن میں موجود ہے۔

پی ٹی آئی کے ایک رکن جو اس اجلاس میں شریک تھے، نے ڈان کو بتایا کہ یہ اجلاس عمران خان کی بنی گالہ کی رہائشگاہ پر منعقد ہوا تھا، اس میں دارالحکومت میں آنے والے مارچ کی تیاریوں پر ہی توجہ مرکوز رہی۔

عمران خان نے اس اجلاس کے دوران کہا ’’جب تک کہ میں زندہ ہوں، میں چودہ اگست کو اسلام آباد کو جانے کے لیے تیار ہوں۔‘‘

انہوں نے متعدد بار اس مارچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملکی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوگا، اور انہوں نے الزام عائد کیا کہ 2013ء کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے ٹھوس ثبوت ان کے پاس ہیں، جس کے بارے میں انہوں نے عہد کیا کہ وہ یومِ آزادی پرپیش کریں گے۔

اس اجلاس کے بعد پی ٹی آئی کے عہدیدار، خاص طور پر وہ جو دیگر شہروں سے تعلق رکھتے تھے، پارٹی کی اپنی غیر واضح حکمت عملی پر سخت پریشان نظر آئے۔ وہ آزادی مارچ کے منصوبے کی تفصیلات کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے۔

وہ ایسی سیاسی چالوں کی اطلاعات پر فکرمند تھے، جو یہ اشارہ کررہی تھیں کہ پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کرسکتی ہے اور لانگ مارچ پارٹی کو حاصل ہونے والے فوائد کے اعلان کے لیے محض ایک موقع بن جائے گا۔

پی ٹی آئی کی مرکزی کمیٹی کی ایک رکن کے مطابق یہ تمام خدشات عمران خان کے سامنے رکھے گئے، چنانچہ انہوں نے دوگھنٹے کے اس اجلاس کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی پارٹی کے رہنماؤں پر یہ واضح کیا کہ انہیں حکومت اور پارٹی کے درمیان ثالثی کی کسی رپورٹ پر دھیان نہیں دینا چاہیٔے اور اس کے بجائے اپنی پوری توجہ مارچ پر مرکوز رکھنی چاہیٔے۔

اس اجلاس کے بعد اسی طرح کے پیغام پر مبنی ایک بیان جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ ’’مرکزی کمیٹی نے اپنے کارکنوں کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ وہ ہر قیمت پر اور خوراک اور ایندھن جیسی تمام ضروری تیاروں کے ساتھ اسلام آباد پہنچیں۔ مرکزی کمیٹی نے کہا کہ اس کا عزم ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنان اور رہنماء اسلام آباد آئیں گے، یہاں تک کہ اگر انہیں یہ فاصلہ پیدل چل کر طے کرنا پڑے۔‘‘

پی ٹی آئی کے سربراہ جن مطالبات کا چودہ اگست کو اپنی تقریر میں اعلان کریں گے، کے بارے میں بات کرتے ہوئے پارٹی کے ایک اور رہنما نے کہا کہ وہ اس بات کا وسیع بنیادوں پر فیصلہ کرچکے ہیں کہ وہ بڑے پیمانے پر انتخابی اصلاحات، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیلِ نو اور ملک بھر میں دوبارہ انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ مطالبات کی تمام تفصیلات جنہیں پی ٹی آئی کے چیئرمین کی تقریر میں شامل کیا جائے گا، کو بعد میں حتمی صورت دی جائے گی۔

بیان میں پارٹی نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ آزادی مارچ سے نمٹنے میں احتیاط سے کام لے، اور اس بات کو دہرایا ہے کہ اگر اس روز کچھ بھی ہوا تو اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔

مرکزی کمیٹی نے حکمران جماعت مسلم لیگ نون سے مطالبہ کیا کہ وہ سڑکوں پر کھڑی کی گئی تمام رکاوٹوں اور کنٹینرز کو فوری طور پر ہٹادے اور بند کرائے گئے پٹرول پمپس کو دوبارہ کھول دے۔

یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ حکومت پنجاب لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر فوری عملدرآمد کرتے ہوئے ضبط کی گئی تمام موٹر سائیکلوں کو واپس کردے۔

اس خطرے کے امکان پر کہ ان کے رہنما کو گرفتار کیا جاسکتا ہے، مرکزی کمیٹی نے واضح کیا کہ عمران خان کو حراست میں لینے کی کوئی بھی کوشش، چاہے وہ خود ان کی حفاظت کے نام پر ہی کیوں نہ ہو، کا پارٹی کے کارکنان اور رہنما بھرپور طاقت کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئی پی ٹی آئی کی مرکزی کمیٹی کے رکن نے ڈان کو بتایا کہ بالفرض حکومت مارچ کرنے والوں کو دارالحکومت میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتی، یا پارٹی رہنماؤں کو اس مظاہرے کی قیادت کرنے سے روکنے کی کوشش کرتی ہے تو پارٹی کے پاس اس کے ساتھ ساتھ ایک ’بی پلان‘ بھی موجود ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے ’’ہمیں امید ہے کہ حکومت ہمیں اپنے جمہوری حق کے استعمال سے نہیں روکے گی، اس لیے کہ اگر اس نے ایسا کیا تو خود اس کے لیے ہی مسائل پیدا ہوں گے۔چودہ اگست کو اسلام آباد پہنچنا اب پارٹی کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے۔‘‘

ایک الگ بیان میں پی ٹی آئی کی مرکزی کمیٹی نے کہا کہ اس کا مطالبہ ہے کہ ایسے تمام لوگ جو حکومت کی جانب سے سڑکوں کو بند کیے جانے کی وجہ سے متاثر ہوئےہیں، شریف برادران کی طرف سے ان کو معاوضہ دلوایا جائے۔

پی ٹی آئی کے صدر جاوید ہاشمی نے اس اجلاس کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت مارشل لاء کی حمایت نہیں کرے گی، اور انہوں نے حکومت کو اس کی خودسری کی پالیسی کا سہارا لینے پر خبردار کیا۔

توقع ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان پیر کے روز بنی گالہ میں اپنی رہائشگاہ پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے۔ پارٹی کے مطابق وہ ’مسلم لیگ نون کے حق میں کی گئی 2013ء کے عام انتخابات میں کی گئی دھاندلی کے ایک بڑی سازش‘ کو بے نقاب کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں