بے گھر افراد ایک بار پھر پناہ کی تلاش میں

11 اگست 2014
سرکاری اسکولوں میں پناہ لینے والے شمالی وزیرستان بے گھر افراد کو موسم گرما کی تعطیلات کے خاتمے پر عمارت خالی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ —. فائل فوٹو
سرکاری اسکولوں میں پناہ لینے والے شمالی وزیرستان بے گھر افراد کو موسم گرما کی تعطیلات کے خاتمے پر عمارت خالی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ —. فائل فوٹو

پشاور: شمالی وزیرستان سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے افراد کو ایک مرتبہ پھر جائے پناہ کی تلاش کے لیے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

ایسے لوگ جنہوں نے سرکاری اسکولوں کی عمارتوں میں پناہ لے رکھی تھی، موسمِ گرما کی تعطیلات کے خاتمے اور اسکولوں کے دوبارہ کھلنے پر انہیں ان عمارتوں سے بے دخل ہونا پڑرہا ہے۔

ان بے گھر افراد نے صوبے خیبر پختونخوا کے چودہ سو سرکاری اسکولوں کی عمارتوں میں اس وقت سے رہائش اختیار کر رکھی تھی، جب اٹھارہ جون کو شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کے آغاز کے بعدوہ قبائلی علاقے سے نقلِ مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔

ان چودہ سو اسکولوں میں سے لگ بھگ نوّے اسکول بنوں میں ہیں، باقی کرک اور لکی مروت میں ہیں۔ ان اسکول کی عمارتوں کو خالی کرنے کی آخری تاریخ دس اگست مقرر کی گئی تھی، اس لیے کہ موسم گرما کی تعطیلات ختم ہونے والی ہیں اور اسکول یکم ستمبر کو دوبارہ کھل جائیں گے۔

آخری تاریخ کے اختتام پر بے گھر افراد کو گھر کے ماہانہ کرائے کے لیے تین ہزار روپے کی معمولی رقم دی گئی تھی، جب انہیں نچلے درجے کے گھروں کے کرائے کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔

میرانشاہ کے ایک رہائشی نصر اللہ اپنے خاندان کے چودہ افراد کو سوات کے خوازہ خیلہ گاؤں میں لے کر آئے ہیں۔ وہ چار کمروں کے گھر کا کرایہ بارہ ہزار فی مہینہ دے رہے ہیں۔

گل وزیر جو میرانشاہ میں گیارہ کمروں پر مشتمل ایک حویلی نما گھر میں رہتے، کا کہنا ہے کہ ’’یہاں تک کہ ہمارا غسل خانہ بھی اس گھر کے کمرے سے بڑا تھا۔‘‘

تاہم انہوں نے کہا کہ سوات کے عوام کافی ہمدرد ہیں، اس لیے کہ 2009ء کے دوران عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کی وجہ سے انہیں خود بھی نقلِ مکانی کی دشواریوں کا تجربہ ہوچکا ہے۔

بنوں اور پشاور کی صورتحال بہت بدتر ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ قبائلی علاقوں اور اس کے قرب و جوار سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی بہت بڑی تعداد نے ان شہروں کا رُخ کیا ہے۔

پشاور جیسے شہر میں ایک خاندان کے لیے کوئی معقول گھر کرائے پر حاصل کرنے کے لیے تین ہزار مہینے کرائے کا پیکیج انتہائی کم ہے۔

بنوں میں کرائے کے مکانوں میں یا اپنے رشتہ داروں کے گھروں میں مسائل کا سامنا کرنے کے بعد بہت سے بے گھر افراد بڑے شہروں میں کرائے کے مکانات کی تلاش شروع کردی ہے۔

مکانات کے حد سے زیادہ بڑھے ہوئے کرائے شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے گھرانوں کی اہم پریشانیوں میں سے ایک ہے۔

گل وزیر کا خاندان کافی بڑا ہے اور 120 افراد پر مشتمل ہے، ان کا کہنا ہے کہ ’’میں نے تین کمروں کا ایک مکان پانچ ہزار روپے مہینے کے کرائے پر لیا ہے، اور اپنے خاندان کے کچھ افراد کو راولپنڈی بھیج دیا ہے، جہاں وہ اسی سائز کے مکان کا ماہانہ کرایہ آٹھ ہزار روپیہ دے رہے ہیں۔‘‘

حیات آباد ٹاؤن شپ میں ایک پراپرٹی ڈیلر حمید خان نے بتایا ’’اس ٹاؤن شپ میں مکان کے کرائے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔‘‘

یہ متمول طبقے کا علاقہ ہے، جو نقلِ مکانی کرنے والے افراد کی پہنچ سے باہر ہے۔ جو اپنا تمام سامان چھوڑ آئے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر لوگ حکومت کی امداد پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔

شمالی وزیرستان کے ایک قبائلی بزرگ ناصر خان کہتے ہیں ’’حکومت کو یا تو کرائے کے پیکیج میں اضافہ کرنا چاہیٔے یا پھر جس قدرجلد ممکن ہو سکے ہمیں گھر واپس جانے دے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ اوّل تو یہاں کرائے پر مکانات دستیاب نہیں ہیں اور اس قدر معمولی رقم پر تو بالکل بھی نہیں۔

ناصر خان نے کہا کہ سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کو چھوڑنے کے لیے لوگ ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس یہ واحد جائے پناہ باقی رہ گئی ہے۔

ایک مؤرخ والیس اسٹیگنر کا کہنا ہے کہ گھر ایک تصور ہے، جس کی بھرپور تعریف ایک ایسی قوم ہی کرسکتی ہے جو بے گھر ہونے پر مجبور ہوئی ہو اور اس کو وہی سمجھ سکتا ہے جسے اس کی سرزمین سے نکلنے پر مجبور کردیا گیا ہو۔

اس حقیقت کو وزیرستان کے بے گھر لوگوں نے اچھی طرح جان لیا ہے، جو اس سے قبل کبھی ایسی صورتحال سے نہیں گزرے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں