لاہور: حکومت پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کو انقلاب مارچ کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے، لیکن اس بات کی ضمانت چاہتی ہے کہ اس کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری لوگوں کو تشدد پر نہیں اکسائیں گے۔

حکومت نے بدھ کے روز اپنی اس آمادگی کا اظہار وزیراعظم نواز شریف کی سیاسی جماعتوں سے رابطے کے بعد کیا۔ انہوں نے ان جماعتوں پر اپنا مؤقف واضح کیا تھا کہ احتجاجی مارچ کی وجہ سے جمہوری نظام کا خاتمہ نہیں ہونا چاہیٔے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ یومِ آزادی پر اسلام آباد جانے والے پاکستان عوامی تحریک کے انقلاب اور پاکستان تحریک انصاف کے آزادی مارچ کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کے لیے حکومت کی جانب سے کیے جانےو الے اقدامات پر ان سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔

اس پیش رفت سے آگاہ ذرائع نے وزیراعظم کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے ان سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو مطلع کیا کہ حکومت آزادی مارچ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی، لیکن انٹیلی جنس اداروں سے موصول ہونے والے دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر کچھ سیکیورٹی انتظامات صرف اس کے شرکاء کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اُٹھائے جائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ انہیں انقلاب مارچ پر بھی کوئی اعتراض نہیں تھا، حکومت کو اس حوالے سے کچھ ضمانت فراہم کی جائے کہ پی اے ٹی کے سربراہ اپنے کارکنان کو تشدد پر نہیں اکسائیں گے۔

وزیراعظم نے مذہبی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق پر زور دیا کہ انہوں نے جس طرح حکمران جماعت مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا تھا، اسی طرح کا ایک کردار حکومت اور طاہر القادری کے درمیان بھی ادا کریں۔

ذرائع کے مطابق سراج الحق سے کہا گیا کہ وہ پی اے ٹی کے سربراہ سے بات کریں اور اس بات کی ضمانت حاصل کریں کہ مارچ کے دوران امن و امان کا مسئلہ پیدا نہیں کیا جائے گا۔

لیکن جماعت اسلامی کے ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ سراج الحق نے پی اے ٹی اور حکومت کے درمیان ثالثی کے کردار سے انکار کردیا تھا۔

بعد میں پنجاب کے وزیراعلٰی شہباز شریف نے سراج الحق کو فون کیا، بظاہر وہ انہیں وزیراعظم کی درخواست پر قائل کرنا چاہتے تھے، لیکن جماعت اسلامی کے اہلکار کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کو بتایا گیا کہ جماعت اسلامی کے امیر اس وقت مصروف ہیں اور ان کے ساتھ بات نہیں کرسکتے۔ وزیراعلٰی سے کہا گیا کہ وہ بعد میں کال کرلیں۔

اسی دوران ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس بیان پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جس میں انہیں اور ان کے کارکنان کو تشدد پسند افراد قرار دیا گیا تھا، جو آئین اور قانون پر یقین نہیں رکھتے۔

انہوں نے کہا کہ وہ آئین پر یقین رکھتے ہیں اور مقررہ طریقہ کار کے مطابق بنیادی قانون میں تبدیلی کرنا چاہتے ہیں، اور عوام کے حقوق کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں