پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے حکومتی ٹیم کی تشکیل

16 اگست 2014
پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لیے حکومتی ٹیم کے ایک رکن جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ہوں گے، جو پچھلے دنوں پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین مصالحتی کوششوں میں خاصے سرگرم رہے تھے۔ —. فائل فوٹو
پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے لیے حکومتی ٹیم کے ایک رکن جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ہوں گے، جو پچھلے دنوں پی ٹی آئی اور حکومت کے مابین مصالحتی کوششوں میں خاصے سرگرم رہے تھے۔ —. فائل فوٹو

لاہور: حکومت نے اپنی مذاکراتی ٹیم کے ارکان کاانتخاب شروع کردیا ہے، جو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ان مطالبات پر پی ٹی آئی کے رہنماؤں سے مذاکرات کرے گی، جن کا اعلان متوقع ہے۔

جمعہ کے روز ایک سرکاری اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ اب تک جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے نام کو مذاکراتی ٹیم کے لیے حتمی طور پر منظور کیا گیا ہے، جبکہ اس ٹیم کے دیگر ارکان کے لیے مشاورت جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ زیادہ تر اراکین پارلیمنٹ میں نمائندگی رکھنے والی جماعتوں سے لیے جائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ مسلم لیگ ن کا کوئی رہنما اس ٹیم میں نہیں لیا جائے گا۔

اسی دوران جماعت اسلامی کے امیر نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر اپنی ٹیم کا اعلان کرے اور انہوں نے دونوں فریقین پر بلاتاخیر بات چیت شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

سراج الحق نے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مصالحت کی کوشش اس وقت ہی شروع کردی تھی، جبکہ آزادی مارچ کا آغاز نہیں ہوا تھا۔

جمعہ کو یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے تجویز دی کہ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ اور پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیٔے جو دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کی نگرانی کرے اور حائل دشواریوں کو دور کرے۔

انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ اگر دونوں فریقین کے درمیان اختلافات مذاکرات کے ذریعے حل نہ ہوسکیں تو یہ معاملہ ووٹروں کے پاس لے جانا چاہیٔے۔

سراج الحق نے خورشید شاہ کو فون کیا اور انہوں نے اتوار کو کراچی میں ملاقات پر اتفاق کیا، جس میں وہ سیاسی بحران کے حل کے لیے آپشنز پر تبادلہ خیال کریں گے۔

جماعت اسلامی کے امیر نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ جمعہ کے روز جس طرح کا واقعہ گجرانوالہ میں رونما ہوا، ایسے واقعات مزید نہ دوہرائے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ اور دھرنے کو سیاسی مسائل کے حل کے لیے قبول کیا گیا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ موجودہ مارچ سیاسی نظام کو مضبوط کرے گا، اور موجودہ مایوسی اور غیریقینی کی صورتحال کے خاتمے میں مدد کرے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں