عمران خان کا سخت مؤقف، حکومت پریشان، پارٹی میں کشمکش

اپ ڈیٹ 18 اگست 2014
عمران خان اپنی پارٹی کے رہنماؤں سے تبادلۂ خیال کررہے ہیں۔ —. فائل فوٹو
عمران خان اپنی پارٹی کے رہنماؤں سے تبادلۂ خیال کررہے ہیں۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کے حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکار کے سخت مؤقف نے ناصرف حکومت کو الجھن میں ڈال دیا ہے، بلکہ ان کی اپنی پارٹی میں بھی کشمکش پیدا کردی ہے۔

حالانکہ اتوار کے روز انہوں نے اعلان کیا تھا کہ حکومت ان سے مذاکرات کے لیے کسی کو بھیجے تاہم پی ٹی آئی رہنماؤں نے ڈان کو بتایا کہ پارٹی اور حکومت کے درمیان صورت حال کو معمول پر لانے اور دھرنا ختم کرنے کے حوالے سے رابطہ نہیں۔

اس حوالے سے پی ٹی آئی سربراہ کی سینئر پارٹی رہنماؤں سے ان کی بنی گالہ میں موجود رہائش گاہ میں ملاقات ہوئی جہاں آگے کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ڈان کو معلوم ہوا ہے کہ یہ ملاقات دوپہر میں ہوئی جس میں تقریباً تمام سینئر پارٹی قیادت موجود تھی۔

اس ملاقات کے دوران پارلیمنٹ سے پی ٹی آئی قانون سازوں کے استعفے سے لیکر خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلی کی تحیل تک تمام آپشنز پر غور کیا گیا۔

پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ چیئرمین اور کچھ 'ہاکس' سول نافرمانی کے ساتھ ساتھ استعفے اور اسمبلی کی تحلیل کے حق میں تھے۔

تاہم دیگر جن میں خیبر پختونخوا کے پارلیمنٹیرینز اور وزیراعلیٰ شامل تھے، نے ان منصوبوں کی حمایت نہیں کی۔

ملاقات میں شریک ایک رہنما کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ان کا کہنا تھا 'یہ ایک سیاسی خود کشی ہوگی۔'

خیبر پختونخوا کے اراکین کا ماننا تھا کہ پارٹی کو اپنی اہلیت صوبے کی حکومت میں بہترین کارکردگی دکھاکر ثابت کرنی چاہیئے۔

دوسری جانب ہاکس کا کہنا تھا کہ استعفے سے دوبارہ الیکشن کروانے کے ان کے ایک نکاتی ایجنڈے کو تقویت ملے گی۔

تاہم خیبرپختونخوا کی مخالفت کے بعد خان صاحب کو بھی بڑے پیمانے پر استعفے دینے کے منصوبے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔

اس پوائنٹ کی وجہ سے گفتگو کے دوران خاصی گرما گرمی پیدا ہوگئی جس کے بعد سول نافرمانی کا معاملہ سامنے آیا جس پر کسی بھی اعتراض نہیں کیا۔

اس کے علاوہ خان صاحب نے ملاقات کے دوران کئی رہنماؤں کو دھرنے سے قبل تیاریوں کے فقدان اور کم لوگ اکٹھا کرنے پر آڑے ہاتھوں لیا۔

ملاقات کے بعد پارٹی قیادت کو اندازہ ہوگیا ہے کہ خان صاحب کسی سمجھوتے کے موڈ میں نہیں اور اپنے مطالبات پر ڈٹے رہیں گے جس کے باعث اطلاعات کے مطابق کئی رہنما ناراض ہیں۔

پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق پارٹی چیف 'ریڈ زون' میں گھنسنے پر سنجیدگی سے غور کررہے ہیں جیسا کہ انہوں نے اتوار کو اپنی تقریر کے دوران کہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ خان صاحب کے اس رویے کے باعث پارٹی کے اندر مایوسی جنم لے رہی ہے اور کچھ قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین حکومت کے ساتھ سمجھوتے کے حق میں تھے تاہم انہیں خدشہ ہے کہ خان صاحب اسے نہیں مانیں گے۔

اس صورت حال کی جزوی طور پر وزیراعظم کے پولیٹیکل سیکرٹری ڈاکٹر آصف کرمانی نے تصدیق کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے پی ٹی آئی قیادت میں مثبت روابط نہیں بن پارہے جبکہ انہوں نے کہا کہ حکومت خان صاحب سے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

راضیہ سید Aug 18, 2014 02:00pm
عمران خان کو یہاں دھرنے سے پہلے بھی یہ بات سمجھا دی گئی تھی کہ اچھا سیاست دان ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو اپنی واپسی کا راستہ رکھے لیکن انھوںنے اس پر کان نہیں دھرے ، اب کیا ہو کبھی اپ سول نافرمانی کی تحریک چلانے کو کہیں کبھی آپ اپنے ہی سپورٹرز اور ووٹرز کو تن تنہا چھوڑ کر بنی گالہ چلے جائیں اور تمام لوگ ٹی وی چیلنز کے اس گانے سے دل بلائیں کہ اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم ، تمھارے بنا ہم بھلا کیا جئیں گے ؟ ہمارا ماننا تو یہی ہے کہ بھائی آپ ایک اچھے لیڈر بھی تھے ، نوجوانوں کی طاقت بھی آپ کے پاس تھی لیکن شاید آپ یہ بھول گئے ہیں کہ ہم جیسے نوجوانوں کی توقعات پر اگر پورا نہ اترا جائے تو ہم معاشرے سے اپنے اردگرد سے شاکی ہو کر مایوس بھی جلد ہو جاتے ہیں ، افسو س تو اس بات کا ہے عمران آپ نوجوانوں کی اس طاقت کو درست طریقے سے استعمال نہیں کر پائے ، سیاسیات کا ایک ادنی طلب علم ہونے کی حثییت سے میں صرف یہ پوچھتی ہوں کہ آپ نے تو دس لاکھ افراد لانے کا عندیہ دیا تھا اب کیا یہ دس لاکھ افراد ہیں ، میں اس تبصرے میں موجودہ حکومت ، یا کسی اور سے مخاطب نہیں عمران صاحب ، ایک نوجوان ہونے کی حثیتت سے آپ سے مخاطب ہوں کہ آپ نے ہمیں کیوں نئے پاکستان بنانے کے خواب دکھائے جبکہ آپ کی اپنی اولاد ، آپ کے بیٹے اس نئے پاکستان کے موسم کی شدت سے تنگ آکر برطانیہ چلے گئے ۔۔۔ اس سوال کا جواب دیں گے ؟ ؟ ؟