پشاور: معلوم ہوا ہے کہ خیبر پختونخوا میں ڈھائی سو سے زیادہ اسکولوں پر پچھلی دو دہائیوں کے عرصے سے مختلف لوگوں نے غیرقانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے، ان میں زیادہ تر پرائمری اسکول ہیں۔

ڈان کو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق ان اسکولوں میں سے 38 پر مکمل طور سے جبکہ 215 کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا گیا ہے۔

محکمہ تعلیم کے ذرائع کے مطابق بہت سے اسکولوں پر قبضہ اس صورتحال میں حیران کن ہے کہ جب ایلیمنٹری اور سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے سینئر حکام اسکول کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ان کی تعداد میں اضافے کی فکر میں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ہزاروں اسکولوں کی ضرورت ہے، جن میں زیادہ ضرورت پرائمری اسکولوں کی ہے، تاکہ اسکولوں میں داخلے سے محروم بچوں کو اسکولوں میں داخل کیا جاسکے۔

محکمہ تعلیم کے ایک سینئر اہلکار نے کہا کہ اسکولوں پر قبضے کے زیادہ تر کیسز میں مالک نے زمین اسکول کو اس شرط پر دی تھی کہ انہیں یا ان کے قریبی رشتہ داروں کو اسی اسکول میں ملازمت دی جائے گی۔

ان ملازمتوں میں چپڑاسی، چوکیدار اور بعض صورتوں میں ایک ٹیچر کی ملازمت بھی شامل تھی۔

انہوں نے کہا کہ جب ان کی ملازمتوں کے مطالبے کو پورا نہیں کیا گیا تو ان مالکان نے اسکول کی عمارتوں پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایسے اسکول جن پر مکمل قبضہ کرلیا گیا ہے، محکمہ تعلیم کے پاس اس کی جائیداد کی دستاویزات نہیں ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ جزوی طور پر قبضہ کیے جانے والے اسکولوں پرچپڑاسی اور چوکیدار قابض ہیں، ان لوگوں نےمتعلقہ اسکولوں کے ایک حصے میں رہائش اختیار کررکھی ہے۔

38 ایسے اسکول جن پر قبضہ ہے، ان میں سے چھ بنوں میں ہیں، پانچ شانگلہ میں، صوابی اور مردان میں چار چار، سوات، پشاور، نوشہرہ، ہنگو اور ٹانک کے ہر شہر میں تین تین، اور ایبٹ آباد، چارسدّہ، اپردیر، کوہستان اور مانسہرہ میں ایک ایک۔

اسی طرح ایسے اسکول جن پر جزوی طور پر قبضہ کیا گیا ہے، بنوں میں 37 ہیں، پشاور میں 20، سوات میں 15، مانسہرہ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ہر ایک میں تیرہ، بارہ چارسدّہ میں، گیارہ لکی مروت میں، مردان اور ایبٹ آباد میں دس دس، نوشہرہ اور اپر دیر میں سے ہر ایک میں نو نو، ہری پور میں سات، شانگلہ، کوہاٹ اور چترال میں سے ہر ایک میں چھ چھ، بونیر اور ٹانک میں پانچ پانچ، تین کوہستان میں، اور دو اسکول بٹگرام میں ہیں۔

محکمہ تعلیم کے ایک سینئر اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ فی الحال محکمہ تعلیم عطیہ کی گئی زمین پر محکمے کو زمین کی منتقلی کے بغیر نئے اسکولوں کی عمارت کی تعمیر کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔

انہوں نے کہا ’’سرکاری عمارت پر اس طرح قبضہ کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے اور کوئی ان قبضہ کرنے والوں کے غلط کام کو چیلنج بھی نہیں کرسکتا۔‘‘

ایلیمنٹری اور سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر رفیق خٹک سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ قبضہ کیے گئے اسکولوں کی تعمیر محکمہ تعلیم کی فزیبیلٹی رپورٹ پر نہیں کی گئی تھی۔

رفیق خٹک نے کہا ’’ان اسکولوں کو سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین نے وفاقی حکومت کی مختلف اسکیموں کے تحت تعمیر کروایا تھا۔‘‘

انہوں نے مزید بتایا کہ صوبائی محکمہ تعلیم کو ان اسکولوں کی تعمیر کے وقت اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔

ایلیمنٹری اور سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر نے کہا کہ نئے اسکولوں کی تعمیر کے لیے مقررہ طریقہ کار کے تحت محکمہ تعلیم کی جانب سے فزیبلیٹی کی تیاری کے لیے پہلے مجوزہ سائٹ پر وزٹ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسکولوں کی تعمیر کے بعد صوبائی مواصلات اور ورکس ڈیپارٹمنٹ اسکولوں کو محکمہ تعلیم کے حوالے کردیتا ہے۔

رفیق خٹک نے بتایا کہ اس کے بعد محکمہ تعلیم نئے اسکول کو فعال بنانے کے لیے اساتذہ اور دیگر عملے کا تقرر کرتا ہے۔ تاہم اس طریقہ کار کو قبضہ کیے گئے اسکولوں کی تعمیر کے لیے اپنایا نہیں گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اسکولوں پر قبضے کے خاتمے اور انہیں فعال بنانے کے لیے محکمے نے باقاعدہ کام شروع کردیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں