انتخابی اصلاحات کی فوری ضرورت

لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔
لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔

موجودہ سیاسی بحران پوری طرح انتخابی اصلاحات کے گرد گھوم رہا ہے۔ بھلے ہی 2013 کے عام انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف الزامات اب حکومت کے خلاف تحریک کا روپ دھار چکے ہیں، لیکن پھر بھی انتخابی اصلاحات کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔ مندرجہ ذیل آٹھ شعبوں میں انتخابی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان: اس وقت آئین کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ممبران کا بیک گراؤنڈ اعلیٰ عدلیہ سے ہونا ضروری ہے۔ یہ پابندی نہ صرف یہ کہ غیر ضروری ہے، بلکہ اس سے انتظامی امور کی مہارت رکھنے والے لوگ بھی باہر رہ جاتے ہیں۔ چار میں سے ایک ممبر کا قانونی بیک گراؤنڈ ہونا ٹھیک ہے، لیکن پانچوں عہدوں پر سابق ججز کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ چیف الیکشن کمشنر، اور الیکشن کمیشن کے ممبران کے لیے عمر کی اوپری حد رکھنا معقول ہوگا۔ اس کے علاوہ ان کے انتخاب کے عمل پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ان کے انتخاب کی آئینی شق میں دو طرفہ مشاورت کے بجائے دو سے زیادہ گروہوں سے مشاورت کی جانی چاہیے۔ الیکشن کمیشن کے اسٹاف کی بھرتیوں، ترقیوں، اور ٹریننگ کے نظام کو بھی پوری طرح بدلنے کی ضرورت ہے۔

ووٹنگ: گزشتہ الیکشن میں سب سے زیادہ شکایات ووٹروں کی شناخت کے حوالے سے ہیں۔ مختلف حلقوں کی جانب سے الزام لگایا گیا ہے، اور نادرا کی جانب سے انگوٹھوں کے نشانات کی جانچ کے بعد یہ تصدیق کی گئی ہے، کہ ووٹس کی ایک بڑی تعداد غیر قانونی طور پر اصل ووٹروں کے علاوہ دوسرے لوگوں نے ڈالی ہے۔ کچھ کیسز میں تو ایک شخص کی جانب سے سو سے زیادہ ووٹس بھی ڈالے گئے، جس کا انکشاف نادرا نے انگوٹھوں کے نشانات کی جانچ کے بعد کیا ہے۔ اس لیے ووٹنگ کے لیے جلد از جلد بایومیٹرک سسٹم لانے کی ضرورت ہے، تاکہ ووٹ ڈالنے سے پہلے ہی ووٹر کی شناخت ممکن ہو سکے۔

پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے، جہاں بالغ آبادی کے 90 فیصد سے زائد لوگوں کے، اور رجسٹرڈ ووٹروں میں سے 100 فیصد لوگوں کے انگوٹھوں کے نشانات نادرا کے ڈیٹا بیس میں موجود ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی نے نہ صرف بایومیٹرک شناخت کو ممکن بنا دیا ہے، بلکہ اب یہ کم قیمت بھی ہوگئی ہے۔ بایومیٹرک شناخت والی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو بتدریج متعارف کرانا چاہیے، جس کی شروعات ضمنی انتخابات کے اگلے راؤنڈ سے کی جا سکتی ہے، تاکہ اس نئے انتظام کو اگلے بلدیاتی اور عام انتخابات تک مکمّل طور پر ٹیسٹ کر لیا جائے۔

کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عوامی نمائندگی ایکٹ 1977 میں ترمیم کی سفارش کی تھی، تاکہ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے لیے وقت کو 1 ہفتے سے بڑھا کر 30 دن کیا جا سکے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ ترمیم گزشتہ قومی اسمبلی سے پاس نہیں ہو سکی، لیکن اسے اب واپس اٹھایا جانا چاہیے۔ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کو بھی آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی تشریح، اور اگر ضرورت پڑے تو ترمیم کے لیے اقدامات کرنے چاہییں، تاکہ ان دونوں آرٹیکلز میں موجود ابہام دور کیے جا سکیں، اور انہیں مؤثر طریقے سے نافذ کیا جا سکے۔

انتخابی اخراجات: 2013 کے انتخابات میں الیکشن مہم کے نئے رواج دیکھے گئے، کیونکہ کمرشل الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں مہم چلانے کے لیے سیاسی جماعتوں نے بہت پیسہ خرچ کیا۔ اس وقت انتخابی قوانین امیدواروں کے انفرادی اخراجات پر تو حد لگاتے ہیں، لیکن سیاسی جماعتوں کے مجموعی اخراجات کے حوالے سے کوئی حد موجود نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے کمرشل میڈیا میں الیکشن مہم پر کیے جانے والے اخراجات کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ویسے الیکشن کمیشن انفرادی طور پر امیدواروں کی جانب سے کیے گئے اخراجات پر بھی چیک لگانے میں ناکام رہا۔ اس ایریا میں الیکشن کمیشن کو ہندوستان کے الیکشن کمیشن سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انڈین الیکشن کمیشن نے پچھلے کئی سالوں میں آزادانہ طور پر ہر حلقے میں انتخابی مبصرین کی تعیناتی کا ایک بہترین طریقہ کار وضع کیا ہے، تاکہ اخراجات کو حد سے نہ بڑھنے دیا جائے۔

نگران حکومتیں: 2013 میں حاصل ہونے والے تجربات کے بعد اب 20 ویں ترمیم کے تحت نگران حکومتوں کے قیام کے طریقہ کار پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ایک سیاسی جماعت، جو صوبائی حکومت میں اتحادی تھی، اس نے الیکشن سے فوراً پہلے حکومت کے ساتھ اتحاد ختم کر لیا۔ قائد حزب اختلاف اس جماعت سے منتخب ہوگئے، جس کی وجہ سے نگران حکومت کی تقرری اصل اپوزیشن کی مشاورت کے بغیر ہوئی۔ اس لیے ایسی سکیم تیار کرنے کی ضرورت ہے، جس کی مدد سے اس طرح کے مسائل سے بچا جا سکے۔ نگران وزیر اعظم اور وزرا اعلیٰ کی زیادہ سے زیادہ عمر بھی قانونی طور پر طے ہونی چاہیے۔ نگران حکومتوں کے قیام کی مشاورت میں نہ صرف قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف، بلکہ دوسری پارلیمانی پارٹیوں کو بھی شامل کرنا چاہیے۔

نتائج کا اعلان: موجودہ پولنگ مرحلے میں ایک سقم یہ بھی ہے، کہ پولنگ اسٹیشنز پر ترتیب دیئے جانے والے نتائج کو ریٹرننگ افسران کی جانب سے اکٹها کیے جانے سے پہلے ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے گنتی کے مرحلے کی شفافیت بڑھانے کے لیے پولنگ سٹیشن کی گنتیوں کو الیکشن کمیشن میں موصول ہوتے ہی ای سی پی کی ویب سائٹ پر پوسٹ کر دینا چاہیے۔

پولنگ اسٹاف: پولنگ اسٹاف کی اکثریت صوبائی حکومتوں کے مختلف ڈیپارٹمنٹس سے آتی ہے، اور ان کے نام جاتی ہوئی صوبائی حکومتوں کی جانب سے تجویز کیے جاتے ہیں۔ ان اداروں میں زیادہ تر بھرتیاں مقامی سیاستدانوں کے زیر اثر ہوتی ہیں، جو الیکشن میں ان پولنگ اسٹاف سے فائدے کی توقع رکھتے ہیں۔ ای سی پی کی جانب سے کڑی نگرانی، اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے اسٹاف کے خلاف سخت ایکشن معملات کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ڈویژن کے پولنگ اسٹاف کو دوسرے ڈویژن میں تعینات کرنا چاہیے، تاکہ وہ مقامی طور پر طاقتور سیاستدانوں کے اثر رسوخ سے محفوظ رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔

الیکشن ٹریبونلز: قانون کے تحت الیکشن ٹربیونل الیکشن پٹیشنز کو 4 ماہ کے اندر نمٹانے کے پابند ہیں، لیکن بدقسمتی سے کل وقتی ججز کی تعیناتی کے باوجود بمشکل آدھی پٹیشنز ہی مقررہ وقت میں نمٹائی گئیں۔ تمام پٹیشنز کا فیصلہ 4 ماہ کے اندر اندر کرنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 23 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں