توجہ طلب شعبہ

01 ستمبر 2014
لکھاری پاکستان انسٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سے وابستہ ہیں۔
لکھاری پاکستان انسٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سے وابستہ ہیں۔

روز مرہ کی زندگی میں بجلی بہت اہمیت کی حامل ہے، پر بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اب ہم اسے نعمت تصور کرتے ہیں- البتہ جس چیز پر ہم کم ہی توجہ دیتے ہیں، وہ ہے ہمارا نیشنل گرڈ سسٹ، یعنی، ٹرانسمیشن لائینیں، ہائی ٹینشن کیبلز، سب اسٹیشنز، پائیلونز، ٹرانسفارمرز، اور لٹکتے ہوئے ننگے تار جو گلی گلی اور سڑک سڑک نظر آتے ہیں-

ہم شاید ہی کبھی ان لوگوں کے بارے میں سوچتے ہیں، جن کی وجہ سے گرڈ سسٹم چلتا رہتا ہے، اسوقت بھی جب ہم کسی لائن مین کو اس سیڑھی پر بیٹھا ہوا دیکھتے ہیں جو گاڑی پر لگی ہوتی ہے، اس خطرناک جگہ بیٹھا وہ پول کا معائنہ کرتا ہے، کیبلز کی مرمت کرتا ہے یا پھر خطرناک نظر آنیوالے سرکٹ باکسوں کے قریب بیٹھا انھیں ٹھیک کرنے کی کوشش کررہا ہوتا ہے- یہاں تک کہ ایک دن ہمیں ناشتے کی میز پر صبح کے اخبار میں یہ خبر پڑھنے کو ملتی ہے کہ دو ہفتوں میں 25 لائن مین اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے لقمہ اجل بن گئے-

حال ہی میں یہ خبر آئی کہ لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے مزدوروں نے ایک ریلی نکالی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ ان اموات کی تحقیقات کی جائیں جنھیں روکا جاسکتا تھا اور کام کے حالات کو محفوظ بنانے کے اقدامات کیے جائیں، جسے ہم ایک بڑے مسئلے کا ایک چھوٹا سا حصہ کہہ سکتے ہیں-

محنت کے ڈھانچے کی نچلی سطح جو معاشی ترقی کی عمارت کی بنیاد ہے کنٹریکٹ مزدوروں پر اور غیر رسمی مزدوروں پر مشتمل ہے جنھیں سماجی تحفظ حاصل نہیں ہے اور نہ ہی انھیں جان لیوا حادثات سے اور کام کی جگہ پہنچنے والے جسمانی نقصانات سے تحفظ حاصل ہے-

بجلی کی لائنیں لگانے والوں اور مرمت کرنے والوں کو اپنے کام کے دوران خطرناک حالات کا سامنا ہوتا ہے اور اسے دنیا کے دس خطرناک ترین پیشوں میں شمار کیا جاتا ہے- تنصیبات، آپریشن، مینیجمنٹ اور پاور سپلائی سسٹم میں جو خطرات موجود ہیں اس کے نتیجے میں بین الاقوامی معیارات قائم کیے گئے، کوڈز اور ریگیولیشنز بنائے گئے تاکہ مزدوروں کو تحفظ دیا جاسکے-

بجلی کے محکمے کی مزدور یونینوں نے مزدوروں کے تحفظ کے معاملات کو اجاگر کیا ہے- اکتوبر 2013 میں پاکستان واپڈا ہائیڈروالیکٹرک ورکرز یونین نے بیان دیا کہ 150 الیکٹرک ورکرز ہر سال موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں، اور حفاظتی اقدامات کو نافذ کرنے کا مطالبہ کیا- یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ معیاری آلات فراہم کیے جائیں اور نوجوان مزدوروں کو ٹریننگ دیجائے- افسروں کی جانب سے غیر معیاری نگرانی کو بھی لائن مینوں کی اموات اور ان کے زخمی ہونے کی ایک وجہ قرار دیا گیا-

ایک الیکٹرک انجینئر نے بتایا کہ پاکستان کی تمام الیکٹرک سپلائی کرنے والی کمپنیاں تنصیبات میں آئی ٹرپل ای Institute of Electrical and Electronics Engineers کا بین الاقوامی معیار استعمال کرتی ہیں- آئی ٹرپل ای کے 160 ممالک میں 395،000 ممبرز موجود ہیں جس میں پاکستان شامل ہے-"لیکن ہر کمپنی کی صحت، تحفظ ، ماحول اور معیار کے تعلق سے ان کی اپنی پالیسی اور قوانین ہیں-" یہ اور بات ہے کہ ان پر کس حد تک عمل ہوتا ہے-

تحفظ کے معیارات، ہنر، معلومات اور الیکٹریکل ورکرز کی تربیت ایک اور اہم عنصر ہے جس کا تعلق بجلی کے مزدوروں کی اچھی کارکردگی سے ہے- ترقی یافتہ ممالک میں بجلی کا کام کرنے والوں کو متعلقہ اتھارٹی سے لائسنس حاصل کرنے کے لیے خصوصی تربیت حاصل کرنا ضروری ہے- حفاظتی آلات و اوزار کے معیار کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور کام کرنے والوں کو حفاظتی ساز و سامان فراہم کیا جاتا ہے، مثلاً تپش کو برداشت کرنے والے دستانے اور آستینیں، چمڑے کی حفاظتی اشیاء، چڑھنے کے لیے انفرادی آلات، خاص قسم کے جوتے اور آگ سے بچانے والے کپڑے وغیرہ۔

تقریباً، دس سال پہلے تک بجلی پیدا کرنا، اسکی ترسیل اور تقسیم حکومت کی ذمہ داری تھی جسے واپڈا اور کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن انجام دیتا تھا- 2005 میں کے ای ایس سی کی نجکاری کردی گئی اور 2008 سے یہ ایک نئی انتظامیہ کے تحت کام کررہا ہے- واپڈا کو 2007 میں دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم پیپکو کو سونپ دی گئ جو اب نو ڈسٹریبیوشن کمپنیوں، چار بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کا انتظام سنبھالتی ہے-

پرائیویٹ پاور اینڈ انفرااسٹرکچر بورڈ کے مطابق، 31 پرائیوٹ پاور پروجیکٹس ہیں- نجکاری کو کارکردگی اور منافع کے لیے جادو کی چھڑی سمجھا جاتا ہے- کارپوریشنز کو بھی مزدوروں کی اچھی کارکردگی کے لیے بہتر خیال کیا جاتا ہے جن کا مینیجمنٹ خیال رکھتی ہیں اور محنت کے قوانین کی پابندی کرتی ہیں- لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں-

کے ای ایس سی کی نجکاری کے نتیجے میں مستقل ملازمین کو نکال دیا گیا اور ان کی جگہ بڑی تعداد میں کنٹریکٹ ملازمین بھرتی کیے گئے-"اخلاق احمد خان، جو کے ای ایس سی لیبر یونین کے چیر پرسن ہیں، کہتے ہیں کہ کے ای ایس سی (کے-الیکٹرک) میں لگ بھگ 5000 سے لیکر 6000 تک مستقل ملازمین ہیں جنھیں اور مراعات کے علاوہ 30000 روپیہ ماہانہ تنخواہ دیجاتی ہے"، اور "12000 سے لیکر 15000 تک کنٹریکٹ ملازمین ہیں جنھیں ماہانہ تقریباً 7000 ہزار روپیہ ماہانہ تنخواہ ملتی ہے"-

ملازمین کو نہ تو مناسب حفاظتی سامان مہیا کیا جاتا ہے اور نہ ہی انھیں ضروری تربیت دی جاتی ہے- کے-الیکٹرک کی ویب سائٹ کے مطابق،"جولائی 2009 سے عملے کے 46055 افراد کو، جس میں ہر درجے کے ملازمین شامل ہیں، حفاظتی اقدامات کی تربیت دی گئی- " خان کے مطابق ان میں صرف ایک گھنٹہ کا لیکچر دیا جاتا ہے - انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کنٹریکٹ ملازمین اکثر و بیشتر میٹرک پاس بھی نہیں ہوتے جبکہ سندھ الیکٹرسٹی رولز 1978 کے تحت یہ ضروری ہے-

پاکستان میں بجلی سے متعلق 22 قوانین ہیں- ان میں سے سب سے زیادہ اہمیت صوبائی الیکٹریسٹی رولز 1978 کی ہے جن کا تعلق بجلی کے کنٹریکٹرز اور سپروائزرز کو لائسنس کے اجراء، اور وائرمین کو سرٹیفکیٹ کے اجرا سے ہے-

پاکستان میں مزدوروں کو نہ صرف یہ مسئلہ درپیش ہے کہ محنت کے قوانین پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا اور انھیں ترقی کرنے کے مواقع حاصل نہیں ہیں بلکہ نہ تو انھیں خصوصی تربیت دیجاتی ہے اور نہ ہی انھیں بہتر کارکردگی اور ہنرمندی کی تعلیم دی جاتی ہے-

انگلش میں پڑھیں۔

ترجمہ: سیدہ صالحہ


لکھاری پاکستان انسٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سے وابستہ ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 25 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں