قوم کی توجہ مظاہرین سے قومی اسمبلی کے اجلاس پر منتقل

اپ ڈیٹ 03 ستمبر 2014
حکومت مخالف مظاہرین کے دوسرے مقام پر منتقلی کے بعد شاہراہِ دستور پر سناٹا چھایا ہوا ہے۔ —. فوٹو ڈان
حکومت مخالف مظاہرین کے دوسرے مقام پر منتقلی کے بعد شاہراہِ دستور پر سناٹا چھایا ہوا ہے۔ —. فوٹو ڈان

اسلام آباد: پارلیمانی کارروائیوں کو جب بھی ٹیلویژن پر نشر کیا گیا ہے، عام طور پر لوگوں کی توجہ کا مرکز نہیں بنی ہے۔ چاہے اس بحث کا موضوع اجتماعی حکمت عملی ہی کیوں نہ ہو۔

لیکن منگل کی سہہ پہر کو ملکی سیاست سے تعلق رکھنے والے لوگ اور بہت سے دوسری غیرسیاسی افراد ٹی وی کے ساتھ چپک کر بیٹھ گئے تھے۔ اس وقت دارالحکومت میں جاری پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کی کارروائی دکھائی جارہی تھی۔

اس تاریخی اجلاس میں تمام سیاسی جماعتوں نے حکومت کو اپنی حمایت کا یقین دلایا، منگل کے روز سینیٹ میں حزبِ اختلاف کے رہنما اعتزاز احسن اور کچھ عرصہ پہلے تک پاکستان تحریک انصاف کے صدر کے عہدے پر فائز جاوید ہاشمی کی ایوان کے فلور پر کی گئی شاندار تقاریر نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی تھی۔

جاوید ہاشمی رکاوٹیں عبور کرکے اس اجلاس میں شریک ہونے کے لیے پہنچے تھے، جہاں انہوں نے اسمبلی کی نشست سے اپنے استعفے کا بھی اعلان کردیا۔

ملک بھر میں جاری کشیدگی کی بنا پر یہ بات واضح طور نوٹ کی گئی کہ گھروں اور بازاروں میں لوگ ٹی وی اسکرین کے اردگرد اکھٹا ہوکر ایوان میں جاری ڈرامے کو دیکھنے پر مجبور ہوگئے۔

گلگت میں قراقرم یونیورسٹی کی ایک فیکلٹی کے رکن نے ڈان کو بتایا کہ زیادہ تر اساتذہ اور طالبعلموں نے سہہ پہر کا وقت یہ تقاریر سننے میں گزارا۔

انہوں نے کہا ’’ہر کوئی جاوید ہاشمی کے بارے میں بات کررہا تھا، اور جب انہوں نے اپنی تقریر شروع کی تو سب نے تالیاں بجائیں۔‘‘

دارالحکومت میں بھی صورتحال مختلف نہ تھی۔ ہوٹلوں، چائے خانوں اور دکانوں پر بلاشبہ کسی بھی جگہ جہاں ٹی وی سیٹ موجود تھا، لوگوں کا ہجوم یہ دیکھنے کے لیے رُک گیا تھا کہ پارلیمانی اراکین کہا کہہ رہے تھے۔

ایک ایئرلائنز کی ایگزیکٹیو عنبرین فیصل خان نے ڈان کو بتایا ’’میری سیاست میں دلچسپی کم نہیں ہوسکتی، لیکن پچھلے چند ہفتے مکمل طور پر مختلف ہوگئے تھے۔ قیاس آرائیوں کے اس کھیل نے کہ حکومت کو گھر بھیج دیا جائے گا یا نہیں، مجھے بھی اپنے ساتھ شامل کرلیا تھا۔ لیکن سوشل میڈیا ہو یا نیوز چینلز، میں ہمیشہ تازہ ترین صورتحال جاننے کے لیے سرفنگ کرتی ہوں۔ میں نے تفریحی چینل دیکھنا بالکل بند کردیا ہے۔‘‘

ایک گھریلو خاتون راحیلہ حامد کہتی ہیں ’’پچھلے چند ہفتوں کے دوران ’دھرنا‘ میرے گھر میں زیرِ بحث واحد موضوع بن گیا ہے۔ میری سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، لیکن ان دنوں صرف سیاست پر بات ہوتی ہے۔ ٹی وی چینلز ہمیں جو اطلاعات چوبیس گھنٹے فراہم کررہے ہیں، میرا خیال ہے کہ مجھے سیاسی طور پر کافی آگاہی حاصل ہوئی ہے اور میں اب اس طرح کی بحثوں میں شریک ہوتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی۔‘‘

شاہراہِ دستور جہاں مظاہرین اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان صرف ایک دن پہلے تک تصادم جاری تھی، وہاں پر بھی اس دن ایک مضطرب خاموشی کا غلبہ دیکھا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایتیوں کی طرح راحیل علی اور ان کے دوستوں کا کہنا تھا کہ وہ جانتے تھے کہ یہ دن خاموشی سے گزرے گا۔

راحیل علی جو ایک مارکیٹنگ ایگزیکٹیو ہیں، نے ڈان کو بتایا ’’یہ قومی اسمبلی کا اجلاس تھا، اور پارلیمنٹ کے اندر جو کچھ ہورہا تھا، سب کی نظریں اس پر مرکوز تھیں۔ ہم جانتے تھے کہ یہاں کو ئی تشدد نہیں ہوگا، اس لیے کہ ایسا ہوا تو اس کو حکومت بُرے انداز سے پیش کرے گی۔‘‘

انہوں نے کہا کہ پچھلے تین روز کے حوصلہ شکن واقعات کے بعد، پولیس کے رویے میں نرمی کو ایک خوش آئند تبدیلی کے طور پر دیکھا گیا۔ ’’آج پولیس ہم سے دور دور رہی۔ کسی نے بھی ہمیں دھرنے میں شامل ہونے سے روکنے کی کوشش نہیں کی۔‘‘

جہاں تک اسد نیازی اور احمد محی الدین جیسے پی ٹی آئی کے کٹر حمایتوں کا معاملہ ہے، تو قومی اسمبلی کی تقاریر سننے کے بعد ان کے دل میں عمران خان کے لیے موجود احترام میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

نہ ہی وہ اعتزاز احسن کی تقریر سے متاثر نہیں ہوئے بلکہ احمد محی الدین نے کہا کہ انہوں نے اعتزاز احسن کی تقریر سنی تھی، جس میں انہوں نے نواز شریف کی حکومت کو بدعنوان اور ماڈل ٹاؤن کے قتل کا مجرم قرار دیا، لیکن اس کے باوجود ان کی پارٹی نے ان کی حمایت جاری رکھی۔

اسد نیازی جو گزشتہ دن کے تصادم میں زخمی ہونے والوں کی دیکھ بھال کررہے تھے، کہنے لگے ’’آج قومی اسمبلی مین مختلف رہنماؤں کی تقاریر نے صرف اس بات کی تصدیق کردی ہے، جس کے لیے عمران خان کھڑے ہوئے ہیں، کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی اور یہ حکومت پاکستان کے عوام کی نمائندہ نہیں ہے۔‘‘

تبصرے (0) بند ہیں