کراچی: دس ہزار پولیس اہلکار گارڈ کی ڈیوٹی پر تعینات

اپ ڈیٹ 04 ستمبر 2014
کراچی پولیس  کے نصف سے زائد اہلکار یا تو انتظامی کاموں یا پھر مختلف شخصیات کی سیکیورٹی مامور ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی
کراچی پولیس کے نصف سے زائد اہلکار یا تو انتظامی کاموں یا پھر مختلف شخصیات کی سیکیورٹی مامور ہیں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

کراچی: دس ہزار کے لگ بھگ پولیس اہلکار اپنے فرائض ادا کرنے کے بجائے، سینئر افسران، اراکین پارلیمنٹ، سیاستدانوں اور دیگر اہم شخصیات کے تحفظ کے لیے تفویض کی گئی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں۔

گزشتہ چند سالوں کے دوران انفرادی تحفظ کے لیے تعینات کیے جانے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

جب کراچی پولیس کے سربراہ غلام قادر تھیبو سے سوال کیا گیا کہ آیا تقریباً دس ہزار کی تعداد میں پولیس اہلکار انفرادی تحفظ کے لیے تعینات کیے گئے ہیں، تو ان کا جواب مثبت تھا۔

سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کے تنظیمی ڈھانچے کے لیے اس پریشان کن صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد کو انفرادی تحفظ کے لیے دی گئی ذمہ داریوں سے واپس بلایا جارہا ہے، لیکن حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اس اہم ادارے کی منظور شدہ تعداد کے نصف سے زائد یا تو انتظامی کاموں یا پھر مختلف شخصیات کے تحفظ کے لیے گارڈ کی فرائض ادا کررہے ہیں۔

حال ہی میں اکھٹا کیے گئے کچھ اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے ایک اہلکار نے بتایا ’’جولائی 2012ء تک شخصیات کی حفاظت کے لیے تعینات کیے گئے پولیس اہلکاروں کی تعداد چھ ہزار پانچ سو نوّے تھی۔‘‘

انہوں نے مزید بتایا ’’اس طرح کی ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہلکاروں کی تعداد اب دس ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے، اور اسی تناسب سے اخراجات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پولیس اہلکاروں کو مختلف شخصیات کے تحفظ کی ذمہ داریاں مختلف بنیادوں اور سفارشات پر تفویض کی جاتی ہیں۔‘‘

کراچی میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور اسٹریٹ کرائم کو دیکھتے ہوئے حکام سینئر افسران، اراکین پارلیمنٹ، سیاستدانوں اور دیگر اہم شخصیات کی سیکیورٹی کے بارے میں مزید تشویش میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں، چنانچہ ایک کروڑ اسّی لاکھ کی آبادی کے اس شہر میں پولیس کے فرائض کی ادائیگی کے لیے منظور شدہ تعد اد کا صرف نصف باقی رہ گئی ہے۔

تاہم ایک سینئر عہدے دار نے دلیل دی کہ یہ تعداد کا مسئلہ تھا، جس نے پولیس کے تنظیمی ڈھانچے کو مجبور کردیا کہ وہ اس معاملے کو اعلٰی حکام کے سامنے پیش کرے پولیس کی باقاعدہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ضمن میں پیدا ہونے والے خلاء کو پُر کرنے کے لیے اور ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کو بھرتی کیا جائے۔ حالیہ مہینوں میں دو ہزار سابق فوجیوں کی خدمات حاصل کرنے کے بعد امکان ہے کہ ایک ہزار مزید ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کو بھرتی کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ’’وزیراعلٰی نے فوج کے ایک ہزار ریٹائرڈ سپاہیوں کے بیچ کو سندھ پولیس فورس میں شامل کرنے کی حال ہی میں منظوری دی ہے، اس کے علاوہ اس مالی سال کے لیے دس ہزار تقرریوں کا ارادہ ہے۔‘‘

’’اس حقیقت پر غور کرتے ہوئے کراچی پولیس نے یہ تجویز دی تھی کہ دس ہزار اہلکاروں کی تربیت میں وقت درکار ہوگا، جبکہ سابق فوجی دو مہینے کے اندر اندر پولیس کے فرائض ادا کرنے کے لیے دستیاب ہوجائیں گے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ حکام کو یقین تھا کہ اس اقدام کے ذریعے پولیس کو کئی طرح سے مدد حاصل ہوگی، جیسے کہ سیکیورٹی کے چیلنجز بڑھتے جارہے ہیں اور کراچی میں پولیس کی مسلسل کوششوں کے لیے موجودہ پولیس فورس سے کہیں زیادہ بڑی فورس کی ضرورت ہے۔ اس بھرتی سے موجودہ پولیس فورس پر بھاری دباؤ کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا ’’ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کو بھرتی کرنے فائدہ یہ ہے کہ وہ پولیس فورس میں شامل ہونے کے لیے مؤثر طور پر پہلے سے تیار ہوں گے۔ پولیس فورس میں شامل ہونے سے قبل انہیں محض بنیادی چیزوں کے بارے میں جانے کی ضرورت ہوگی اور یہی وجہ سے کہ سندھ پولیس کی افرادی قوت کی فوری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے یہ تجویز بھیجی گئی تھی۔‘‘

مذکورہ افسر نے کہا کہ کراچی پولیس کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے، جو بڑی تعداد میں پولیس اہلکاروں کی مختلف شخصیات کے تحفظ کی ذمہ داریاں تفویض کیے جانے کے سبب بہت زیادہ متاثر ہے۔

انہوں نے کہا ’’بے شک بہت سے افراد کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں، لیکن ان میں سے کچھ مستثنیات بھی ہیں، جو محض اسٹیٹس سمبل کے طور پر پولیس گارڈ رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں