پشاور : کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور اس سے الگ ہونے والے گروپ جماعت الاحرار(جے اے) کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے اور ایک خط میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے ٹی ٹی پی کے سربراہ مولانا فضل اللہ نے ان افراد سے ہاتھ ملا لیے ہیں جو عسکریت پسند کمانڈرز کی ہلاکت میں ملوث ہیں۔

جمعرات کو جے اے کے ترجمان احسان اللہ احسان نے ایک بیان میں کہا کہ وہ لوگ جو ٹی ٹی پی کمانڈرز ندیم عباس، عصمت اللہ بھٹانی، طارق منصور اور محسود قبیلے کے دو سو جنگجوﺅں کی ہلاکت میں ملوث ہیں اب فضل اللہ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔

احسان اللہ احسان جو پہلے ٹی ٹی پی کا مرکزی ترجمان تھا، نے کہا کہ اپنے گروپ کے سربراہ کی حیثیت سے فضل اللہ کو قاتلوں کو " انصاف" کے کٹہرے میں لانا چاہئے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ ٹی ٹی پی سربراہ کے اندر اچھے قائد کی خوبیوں کی کمی ہے جس کے نتیجے میں متعدد کمانڈرز مارے گئے ہیں۔

جے اے کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ فضل اللہ کی قیادت میں ٹی ٹی پی" اب صرف چند افراد پر مشتمل گروپ رہ گیا ہے"۔

احسان اللہ احسان نے کہا کہ فضل اللہ کے پاس مہمند ایجنسی میں ٹی ٹی پی کے گروپ سے عمر خالد خراسانی کو برطرف کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔

عمر خالد خراسانی اب جے اے کا متحریک رکن ہے اور گروپ کی قیادت نے اسے مہمند کا لیڈر مقرر کیا ہے۔

ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کمانڈرز کی اکثریت جے اے میں شامل ہوچکی ہے ، جبکہ بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کے کاندان بھی اس کے ساتھ جڑ گئے ہیں۔

اس نے کہا کہ جے اے ملا عمر کی برتری کا اظہار کرتا ہے اور وہ افغان طالبان لیڈر کی قائدانہ صلاحیتوں پر یقین رکھتا ہے۔

احسان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے کچھ عناصر جے اے اور افغان طالبان کے درمیان اختلافات کے لیے سازشیں کررہے ہیں۔

جے اے کے ترجمان نے کہا کہ فضل اللہ کو ان افراد کے ناموں کو سامنے لانا چاہئے جو ٹی ٹی پی راولپنڈی کے کمانڈر ندیم عباس، عصمت اللہ شاہین اور طارق منصور آفریدی کے قتل میں ملوچ ہیں۔

یہ پہلی بار ہے کہ طالبان سے متعلق گروپ نے ندیم عباس کی ہلاکت کا اعتراف کیا ہے جو اگست 2011 مین پولیس کی حیراست سے فرار ہوگیا ت ھا اور دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں ملوث تھا۔

ندیم عباس اور ایک اور ٹی ٹی پی کمانڈر زکیم شاہ کو خیبرکالج آف ڈینٹیسٹری میں علاج کے لیے لایا گیا تھا اور جب انہیں واپس پشاور کی سینٹرل جیل لایا جارہا تھا تو وہ فرار ہوگئے تھے۔

عصمت اللہ شاہین جو ٹی ٹی پی کا نگران سربراہ تھا، میران شاہ میں اپنی رہائشگاہ کے باہر گزشتہ سال فروری میں مارا گیا تھا۔

احسان اللہ احسان نے واضح کیا کہ جے اے کا جند خراسان گروپ سے کوئی تعلق نہیں، جبکہ احرارالہند جے اے میں مدغم ہوگیا ہے۔

اس کا کہنا تھا کہ مالاکنڈڈویژن کے بیشتر طالبان کمانڈرز جے اے میں شامل ہوگئے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں