انتخابی اصلاحات پر پی ٹی آئی اور حکومتی تجاویز کا تبادلہ

اپ ڈیٹ 05 ستمبر 2014
پی ٹی آئی کی تجاویز پر حکومت نے اپنا تفصیلی جواب بھیج دیا ہے، تاہم ذرائع کے مطابق تاحال دونوں اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ —. فائل فوٹو
پی ٹی آئی کی تجاویز پر حکومت نے اپنا تفصیلی جواب بھیج دیا ہے، تاہم ذرائع کے مطابق تاحال دونوں اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: جمعرات کی شام انگریزی حرف ‘ڈی’ نے خوفزدہ کردیا، جب پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی مذاکراتی ٹیم کے ایک اہم رکن نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ ان کی پارٹی حکومت کے ساتھ ایک معاہدے ‘ڈیل’ پر مہر ’سیل‘ لگانے جارہی ہے، اور سیاسی تعطل کا خاتمہ ہونے والا ہے۔

ڈاکٹر عارف علوی نے ڈان کو بتایا کہ ’’دونوں فریقین نے وسیع بنیادوں پر صرف انتخابی اصلاحات اور عدالتی کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے ہماری تجاویز پر اتفاق کیا ہے۔ ہمارے باقی مطالبات پر مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔‘‘

انہوں نے یہ بیان اپنی پارٹی کی جانب سے تیار کردہ ورکنگ پیپر عوام کے سامنے پیش کرنے کے بعد دیا۔

آٹھ صفحات ورکنگ پیپر کا سرسری جائزہ لینے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ درمیانی راستے کی تلاش کے لیے کی جانے والی بہت زیادہ امیدوں کا پورا ہونا آسان نہیں ہوگا۔

مثال کے طور پر پی ٹی آئی خصوصی اختیارات کے ساتھ سپریم جیوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے نئی قانون سازی کروانا چاہتی ہے۔

پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ اس کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ معاملے کی تحقیقات و مقدمے کی کارروائی کرے اور مدمقابل جماعتوں حکومت اور پی ٹی آئی کے لیے ایک واجب التعمیل فیصلہ پیش کرے۔

پی ٹی آئی کے ورکنگ پیپر کے مطابق سپریم جیوڈیشل کمیشن کا بنیادی کردار پی 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی اور سازباز سے متعلق ٹی آئی کے الزامات کی آزادانہ تحقیقات ہوگا، اور ان تحقیقات کی بنیاد پر وہ تیس دنوں کے اندر قانونی طور پر واجب التعمیل اور قابلِ نفاذ حتمی رپورٹ پیش کرے گا۔

تحقیقات کے حوالے سے پی ٹی آئی نے تجویز دی ہے کہ سپریم جیوڈیشل کمیشن کی مدد کے لیے ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن کمیٹی قائم کی جائے، جو ایف آئی اے، نادار، الیکشن کمیشن، آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے حکام پر مشتمل ہو۔

یہ کمیٹی سپریم جیوڈیشل کمیشن کے ایک بازو کے طور پر کام کرے گی۔

سینئر وکلا نے تسلیم کیا ہے کہ ان تجاویز کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہوگی۔

سابق وزیرِ قانون، تجربہ کار آئینی ماہر اور سپریم کورٹ کے وکیل ایس ایم ظفر نے ان تجاویز پر بات کرتے ہوئے کہا ’’یہ نیا خیال معلوم ہوتا ہے، اس کے لیے ایک آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی۔‘‘

انہوں نے واضح کیا کہ اس وقت انتخابات کے دوران دھاندلی کی تحقیقات الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کام ہے، وہ ایک مخصوص مدت کے بعد اس معاملے پر درخواستوں پر کام نہیں کرتا۔

ان کے نکتہ نظر کی ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے ایک طرح سے توثیق کی گئی تھی، انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ دونوں فریقین سخت بات چیت کی جانب بڑھ رہے تھے، جب وہ مجوزہ سپریم جیوڈیشل کمیشن کے حوالے سے شرائط کو حتمی صورت دینے کی کوشش کررہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں میمو گیٹ پر کمیشن کے نتائج اور میڈیا کو کسی قسم کاحتمی حل فراہم نہ کیے جانے کو دیکھتے ہوئے ایک کمیشن پر اتفاق کے بعد بھی اس معاملے پر پی ٹی آئی آرام سے بات کرنے کے لیے تیا رنہیں تھی۔

تاہم پی ٹی آئی کی تجاویز محض ایک غیرمتنازعہ کمیشن کی یقین دہانی پر ہی ختم نہیں ہوجاتیں، جو ورکنگ پیپر کے مطابق تیس انتخابی حلقوں کی تحقیقات کرے گا، جن پی ٹی آئی کی جانب سے نشاندہی کی جائے گی۔

ثبوت کی تعریف

بات بہت آگے تک جاتی ہے، جس کی تحریک انصاف نے تفصیل سے وضاحت بھی کی ہے، کہ کس چیز کو ثبوت تصور کیا جائے گا، جو دھاندلی ثابت کرنے کے لیے کافی ہوگا۔

یہاں پی ٹی آئی تجویز دیتی ہے کہ الیکشن کمیشن کے کسی بھی اہلکار کے پارٹی پر تعصب؛ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز کی بھول چوک یا کسی بھی غیرقانونی طرزعمل؛ ریٹرننگ آفیسرز؛ سرکاری حکام کی غیرمجاز تقرری یا تبادلہ؛ آخری لمحات میں پولنگ اسٹیشنوں کے مقام کی تبدیلی؛ نتائج کی تصدیق یا نوٹیفکیشن میں تاخیر؛ بیلیٹ بکسوں کو بھرنا، آخری لمحوں میں پولنگ کے منصوبوں میں تبدیلیاں؛ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق میں نادار کی ناکامی....یہ تمام عوامل دھاندلی کے ثبوتوں کا تعین کرسکتے ہیں۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ان تجاویز کو اگر تسلیم کرلیا جاتا ہے اور اس طرح کے سخت قوانین کے تحت تحقیقات کروائی جاتی ہیں، تو کسی بھی متنازعہ حلقے کے نتیجے کو گرین چٹ دینا مشکل ثابت ہوسکتا ہے۔

اگلا قدم کیا ہوگا؟

ورکنگ پیپر میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر اس طرح کی دھاندلی ثابت ہوجاتی ہے تو وزیراعظم اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کے انعقاد کی سفارش کریں گے۔

دراصل یہی وجہ ہے کہ سفارشات کا یہ سیٹ تحقیقات کے بعد کے مرحلے سے متعلق ہے، جس میں پی ٹی آئی نے تجویز دی ہے کہ دھاندلی کے معاملے کی جانچ پڑتال دو مرحلوں میں کی جائے۔

پہلے مرحلے میں بااختیار سپریم جوڈیشل کمیشن تحقیقات کرے گا اور دوسرے مرحلے میں (جب دھاندلی کی تصدیق ہوجائے گی) وزیراعظم استعفٰی دیں گے؛ اسمبلیاں تحلیل ہوجائیں گی؛ انتخابی اصلاحات کی جائیں گی؛ تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے ایک غیرمتنازعہ نگران حکومت قائم کی جائے گی؛ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تمام اراکین مستعفی ہوجائیں گے؛ اور جن لوگوں نے 2013ء کے انتخابات کی مبینہ دھاندلی میں مدد کی تھی، ان تمام کا آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت محاسبہ کیا جائے گا۔

اس دوسرے مرحلے میں سپریم جوڈیشل کمیشن مندرجہ بالا تمام باتوں پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائے گا۔

ایک اور اہم تجویز کے مطابق حکومت اور اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد عبوری مدت کے لیے پی ٹی آئی ایک سپریم مانیٹرنگ کونسل کا قیام چاہتی ہے، جو پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے درمیان یا پی ٹی آئی اور انتظامیہ کے حکام کے درمیان تعطل، اختلاف اور یا تمام تنازعات کے تصفیہ کے لیے ایک بنیادی فورم کے طور پر کردار ادا کرے گی۔

لیکن ان تجاویز کے بے انتہاء طوالت کے باوجو ڈاکٹر عارف علوی اصرار کرتے رہے کہ ان کی پارٹی نے وزیراعظم کا فوری استعفیٰ اور اسمبلیوں کی فوری تحلیل کے اپنے دو اہم مطالبات سے پیچھے ہٹنے میں لچک ظاہر کی تھی۔

انہوں نے کہا ’’اس کے بجائے ہم نے تجویز دی کہ وہ ایک مہینے کے لیے رخصت پر چلے جائیں، جب تک کہ جوڈیشل کمیشن انتخابی دھانلی پر اپنی تحقیقات مکمل کرلے، اور اسمبلی بھی برقرار رہیں۔ اور اس وقت تک ایوان کی اکثریتی پارٹی کے طور پر مسلم لیگ ن کو کام کرنے کی اجازت دی جائے۔‘‘

رات گئے تک پی ٹی آئی کی تجاویز عوام کے سامنے آنے کے کئی گھنٹوں کے بعد حکومت نے کہا کہ اس نے اپنا تفصیلی جواب پارلیمانی پارٹی کے رہنماؤں کو اعتماد میں لینے کے بعد تیار کرلیا تھا۔حکومت کا کہنا تھا کہ یہ جواب پی ٹی آئی کی قیادت کو بھیج دیا گیا تھا۔

حکومت نے کہا ہے کہ سینیٹر اسحاق ڈار نے پی ٹی آئی کی قیادت کو یہ جواب پیش کردیا ہے۔ پی ٹی آئی نے حکومت کے جواب پر اپنا ردّعمل دینے کے لیے ایک دن کا وقت مانگا ہے۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایک اور مذاکرات کار اسد عمر نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے ردّعمل پر جمعہ کے روز تبادلۂ خیال کرے گی۔

پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین نے ایک ٹیلیویژن چینل کو بتایا کہ دونوں فریقین جمعہ کو ملاقات کریں گے۔

جب اس بارے میں وفاقی وزیر ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ سے پوچھا گیا تو انہوں نے حکومتی جواب کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی، اگرچہ انہوں نے کہا کہ یہ جواب پی ٹی آئی کو ارسال کردیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ جنرل عبدالقادر پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی ٹیم کا حصہ ہیں۔

تاہم اس حکومتی جواب کی تیاری میں شریک ایک سرکاری ذریعہ نے ڈان کو بتایا ’’میں نہیں جانتا کہ دونوں فرقین اس خلا کو کیسے پُر کریں گے، اس لیے تاحال دونوں ہی اپنے اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔‘‘

وزیراعظم کی جانب سے حمایت کے حصول کی کوششیں جاری

پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں کے ساتھ وزیراعظم نے ایک گھنٹہ طویل ملاقات کی اور حکومت کی پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت کے بارے میں انہیں اعتماد میں لیا۔

جبکہ صبح کے وقت انہوں نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی قیادت میں چھ رکنی جرگے کے اراکین سے بھی ملاقات کی۔

سراج الحق کا مشن امپاسیبل

شام کے وقت جماعتِ اسلامی کے امیر نے پیپلزپارٹی کے رہنما اور قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ سے ملاقات کے بعد کہا کہ دونوں فریقین (حکومت اور پی ٹی آئی) کو تیزی سے آگے بڑھنا ہوگا، اس لیے کہ کوئی بھی کسی قسم کی مزید تاخیر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین چاہتے ہیں کہ جمعہ کو جب وہ ملاقات کریں تو چھ رکنی امن جرگہ بھی اس موقع پر موجود رہے۔

رات گئے تک کچھ غیر مصدقہ اطلاعات یہ بھی تھیں کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور جماعت اسلامی کے امیر کے درمیان خیبر پختونخوا ہاؤس پر ملاقات ہوئی ہے۔ تاہم اس کی تصدیق ممکن نہیں تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں