اسلام آباد: سپریم کورٹ کی ایک بینچ نے الیکشن سے متعلق ایک تنازعے کی سماعت کرتے ہوئے منگل کے روز یہ فیصلہ کیا کہ اس طرح کے تمام معاملات کو چیف جسٹس ناصرالملک کے پاس بھیجا جائے اور ان سے درخواست کی جائے کہ انتخابات سے متعلق تمام تنازعات کی ایک ساتھ سماعت کی جائے تاکہ ایک یکساں فیصلہ سامنے آسکے۔

جسٹس ثاقب ناصر کی سربراہی میں ایک تین رکنی بینچ نے یہ محسوس کیا کہ انتخابات سے متعلق معاملات کو خصوصی طور پرتشکیل دیے گئے ایک بینچ کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے، تاکہ اس طرح کے مقدمات کا بجائے علیحدہ علیحدہ فیصلے دینے کے یکساں اور ایک متفقہ فیصلہ کیا جاسکے۔

عدالت نے رجسٹرار آفس کو بھی انتخابات سے متعلق تمام مقدمات کو اکھٹا کرنے کی ہدایت کی ہے، تاکہ سپریم کورٹ موجودہ مقدمات کے ساتھ انہیں بھی چیف جسٹس کے پاس حتمی منظوری کے لیے بھیج سکے۔

یہ فیصلہ اس وقت لیا گیا جب کہ سپریم کورٹ کی یہ بینچ نیشنل پیپلزپارٹی کے رکن محمد ابراہیم جتوئی کی جانب سے دائر کردہ ایک درخواست کی سماعت کررہی تھی، یہ درخواست شکار پور این اے-202 سے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخابی تنازعے سے متعلق تھی۔

درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ ایک انتخابی ٹریبیونل نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اس حلقے کے بیس پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کے انعقاد کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کے آفتاب شعبان میرانی کو کامیاب امیدوار قرار دیا تھا۔

دوبارہ پولنگ میں آفتاب میرانی کو اپنے مخالف امیدوار جتوئی سے 223 ووٹ زیادہ حاصل کرنے پر کامیاب قرار دیا گیا تھا۔

اسی طرح کا ایک تنازعہ 2008ء کے انتخابات میں انہیں امیدواروں کے درمیان اسی انتخابی حلقے میں پیدا ہوا تھا۔

اس وقت بھی یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا تھا، اور اس نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے انتخابی حلقے این اے-202 کے 18 پولنگ اسٹیشنوں میں دوبارہ پولنگ کا انعقاد کروائے۔

منگل کے روز عدالت نے مشاہدہ کیا کہ انتخابی دھاندلیوں سے متعلق الزامات اور نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے کیے گئے ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے عمل سے متعلق خدشات آج کے اہم مسائل بن گئے ہیں۔

چنانچہ عدالت نے فیصلہ کیا کہ احتیاط پر مبنی اقدام یہی ہوگا کہ انتخابی سے متعلق تمام تنازعات پر یکساں فیصلہ لیا جائے۔

نادرا کی ایک رپورٹ کی بنیاد پر دوبارہ پولنگ کے انعقاد کے اس فیصلے سے یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ انتخابات کے دوران ہیرا پھیری کی گئی تھی، عدالت نے کہا کہ اس طرح کے تنازعات میں نادرا کے کردار کو بھی زیرِ غور لایا جانا چاہیے۔

عدالت نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ اگر انتخابی شکایات میں ووٹ کی تصدیق کے کردار میں حکومت نادرا کو اختیار دینے کا ارادہ رکھتی ہے تو اس ادارے کے قوانین میں ترمیم کے لیے قانون سازی کرنی ہوگی۔

اس موقع پر عدالتی بینچ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے 2013ء میں ورکرز پارٹی فیصلے میں انتخابی اصلاحات کا مشورہ دیا تھا، جس پر عمل کیا گیا ہوتا تو ملک کو ایسے سیاسی بحران کا سامنا کرنا نہیں پڑتا، جس سے آج کل دوچار ہے۔

درخواست گزار کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ انتخابی ٹریبیونل نے نادرا کی ایک رپورٹ کی بنیاد پر ان کے مؤکل کے خلاف فیصلہ دیا تھا، جبکہ اس ادارے کا انتخابات میں کوئی کردار ہی نہیں تھا۔

انہوں نے عدالت سے اس حوالے سے رہنمائی کرنے کی درخواست بھی کی کہ ووٹوں کی تصدیق کے عمل میں نادرا کا کیا کردار متعین کیا جانا چاہیے۔

آفتاب شعبان میرانی کی جانب سے ایڈوکیٹ لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے انتخابی تنازعات سے متعلق تمام مقدمات کو اکھٹا کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔

انہوں نے یاد دلایا کہ پارلیمنٹ بھی اسی طرز کے خطوط پر کام کررہی ہے اور انتخابی قوانین میں اصلاح اور بہتری کے لیے تینتس رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں