اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان بالآخر ان بے قاعدگیوں کی تفصیلات ظاہر کرنے پر تیار ہوسکتا ہے، جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ ان کا ارتکاب عدلیہ سے لیے گئے ریٹرننگ افسران نے 2013ء کے انتخابات میں کیا تھا۔

الیکشن کمیشن کے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ توقع ہے کہ یہ تفصیلات انتخابی اصلاحات سے متعلق 33 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے اس کے اگلے اجلاس میں پیش کی جائے گی۔

بعداز انتخابات کی جائزہ رپورٹ پر تبادلۂ خیال کے دوران الیکشن کمیشن کے سیکریٹری اشتیاق احمد خان نے اس پارلیمانی کمیٹی کے سامنے تسلیم کیا تھا کہ ریٹرننگ افسران کے خلاف شکایات موصول ہوئی تھیں، چنانچہ ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ان کی تفصیلات فراہم کریں۔

چند ہفتے پہلے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر شایع ہونے والے بعداز انتخابات کے تجزیے سے الیکشن کمیشن نے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے بارے میں کہا تھا کہ یہ رپورٹ محض اسٹیک ہولڈرز کے تاثرات اور اجتماعی مباحثے کا ایک مجموعہ ہے۔

تاہم الیکشن کمیشن کے حکام نے پہلے نہ تو ان دعووں کی حقیقت سے کی تصدیق کی اور نہ ہی ان سے انکار کیا۔

اس رپورٹ میں دو بڑی بے قاعدگیوں کے بارے میں بات کی گئی تھی، اول تو ریٹرننگ افسران نے پولنگ اسکیموں کو تبدیل کردیا، اور الیکشن کمیشن کو اطلاع دیے بغیر پولنگ کے دن سے قبل تربیت یافتہ عملے کو ہٹا کر اناڑی اہلکاروں کو تعینات کردیا گیا۔

الیکشن کمیشن کے ایک سینئر اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ اس کمیشن کو محض یہ ادارتی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ انتخابی عمل کو موجودہ نظام میں وضاحت کیے گئے نکتہ نظر کے ساتھ آگے بڑھائےاور پھر اصلاحی اقدامات اور اصلاحات کی تجویز دے۔

انہوں نے بعداز انتخابی جائزے کا حوالے دیتے ہوئے کہا ’’یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ اس طرح کی کوششوں کی تعریف کرنے کے بجائے، بعض حلقوں نے ان کوششوں کی تناظر میں مسخ کرکے پیش کیا اور انہیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔‘‘

پاکستان مسلم لیگ ق کے سینیٹر مشاہد حسین سید، جو اس پارلیمانی کمیٹی کے ایک رکب بھی ہیں، نے ڈان کو بتایا کہ یہ رپورٹ مبہم اور تفصیلات پر مشتمل نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر اس میں ایسی کوئی تعداد نہیں دی گئی تھی کہ پولنگ کے روز کتنے پولنگ اسٹیشنوں اور اسکیموں کو تبدیل کیا گیا تھا۔

مشاہد حسین نے کہا کہ ان تبدیلیوں کے پس پردہ وجوہات بھی ایک معمہ بنی ہوئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ووٹ کا حق استعمال کرنے سے روکنا، قانون کی خلاف ورزی، جمہوری اقدار کے خلاف اور الیکشن کمیشن کے قوانین کے بھی خلاف ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ اس جائزے میں سیاسی جماعتوں کے رائے کا بھی فقدان ہے، جو انتخابی عمل میں بنیادی اسٹیک ہولڈرز ہیں۔

سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ مئی 2013ء کے انتخابات میں کیا کچھ غلط کیا گیا تھا اور کیوں، تو اس کا شفافیت کے ساتھ محاسبہ کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ الیکشن کمیشن کا ریٹرننگ افسران پر اختیار نہیں تھا۔ مزید یہ کہ پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں اور یقیناً پوری قوم لازماً یہ جاننا چاہے گی کہ اصل اختیار کس کے پاس تھا، اور کون تھا جس کی ہدایات کے تحت ریٹرننگ افسران کام کررہے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں