اسلام آباد: حکومتی پابندیوں کے باوجود کالعدم عسکریت پسندگروپس کے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ عیدالاضحیٰ کے تہوار کے دوران جڑواں شہروں میں ذبح ہونے والے جانوروں کی کھالیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

ان کے نمائندوں اور ان کے لیے ہمدردی رکھنے والے مقامی مذہبی پیشواؤں کو پکڑنے کے لیے مقامی حکام کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا، جو اپنی مساجد، مدرسوں اور مذہبی ٹرسٹ کے نام پر کھلے عام کھالیں اکھٹا کررہے تھے۔

بلاشبہ ان میں سے کچھ کو کالعدم عسکریت پسند گروپس کے دفاتر کے سامنے دیکھا گیا تھا، جیسے کہ جی-9 مرکز میں مسجد اور آبپارہ میں مدرسہ جامعہ رشیدیہ کا اہل سنت والجماعت میں اہم عہدوں پر فائز ہیں، یہ تنظیم کالعدم سپاہِ صحابہ پاکستان (ایس ایس پی) کا دوسرا جنم ہے۔

تاہم ان کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ وہ یہ اکھٹا کی گئی کھالوں سے حاصل ہونے والے رقم کو اپنے اداروں پر خرچ کرتے ہیں۔

اسلام آباد کیپیٹل حدود کی انتظامیہ کے ایک عہدے دار نے ڈان کو بتایا کہ کالعدم گروپس کے معاملہ اور ان کی کھلے عام سرگرمیوں کو حکومت کے سامنے کئی مرتبہ اُٹھایا گیا ہے، لیکن پالیسی ہدایات کی کوئی پیروی نہیں کی گئی۔

مذکورہ عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’اس صورتحال میں ضلعی انتظامیہ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتی ہے کہ وہ بعض مسجد یا مدرسے کو کھالیں جمع کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردے۔ لیکن اس وقت کیا کیا جائے، جب وہ اجازت حاصل ہیں نہیں کرتے اور اپنی سرگرمیاں دوسرے طریقوں سے جاری رکھتے ہیں۔‘‘

اہلِ سنت والجماعت کے سیکریٹری اطلاعات عنیب فاروقی کا کہنا ہے کہ ان کی مذہبی جماعت نے کسی مسجد یا مدرسے سے مدد نہیں لی، لیکن الاشعر ویلفیئر ٹرسٹ نے یہ کام کیا ہے، واضح رہے کہ اہلِ سنت والجماعت کے رہنما مولانا احمد لدھیانوی جس کے سرپرست ہیں۔

انہوں نے ڈان کو بتایا ’’ہم نے عطیات، کھالیں وغیر ویلفیئر ٹرسٹ کے لیے جمع کی ہیں، اور یہ سب حکام کی اجازت اور قانون کی حدود کے اندر رہتے ہوئے کیا گیا ہے۔‘‘

یہاں تک کہ چھوٹے محلوں میں تحریک اسلام جیسے کالعدم گروپس کے لیے لوگ کھالیں اکھٹا کرتے رہے، جس پر راولپنڈی کینٹ کے مرکز میں پریڈلین کی مسجد میں نمازیوں کے قتلِ عام کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔

اسلام آباد کے سیکٹر جی-15 کے ایک رہائشی کہتے ہیں ’’میں تفصیلات بیان نہیں کرسکتا، اس لیے کہ میں ان سے خوفزدہ ہوں، البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ میرے پڑوسی جو اس گروپ سے تعلق رکھتے ہیں، ہمیں کھالیں دینے کے لیے کہا تھا، لیکن ہم نے نرمی کے ساتھ انکار کردیا۔‘‘

یہ ایک سنگین لیکن پیچیدہ مسئلہ ہے، اس لیے کہ مساجد کو عطیات جمع کرنے پر کوئی پابندی نہیں، اور نہ ہی لوگوں اور ان کے ساتھ منسلک گروپس کو سیاسی حصہ لینے سے روکا گیا ہے۔ ان سب کو کسی پرچم لہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سماجی سائنسدان کہتے ہیں کہ ناصرف ان کو روکنے والے قوانین گہرے خلاءٕ کا شکار ہیں، بلکہ ان کے نفاذ میں بھی یہ خلاء موجود ہے۔

انہوں نے کہا ’’قربانی کے جانوروں کی کھالوں سمیت تمام عطیات ان کے لیے بے حساب دیے جاتے ہیں، اب یہ مساجد یا دوسرے کسی بھی اداروں پر منحصر ہے کہ وہ اپنے سالانہ حساب کتاب میں جو چاہتے ہیں اعدادوشمار شامل کردیتے ہیں۔‘‘

ان کے مطابق ان عطیات کو ناصرف دہشت گردی یا دوسری غیرقانونی سرگرمیوں میں بلکہ سیاسی سرگرمیوں میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا ’’مسئلہ یہ ہے کہ عطیات دینے والے رقم یا کھال مسجد یا مدرسے کو اس کے اپنے استعمال کے لیے دے رہے ہیں، اور کسی نامعلوم پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں کے لیے نہیں دے رہے۔‘‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں

Daud Ijaz Mir Oct 09, 2014 11:08am
آپکی رپورٹ میں بہت ساری غلطیاں ہیں 1-اہلسنت والجماعت کےسربراہ کانام"مولانامحمداحمدلدھیانوی"ہے 2- انکےٹرسٹ کانام "الایثارویلفیئرٹرسٹ"ہے