واشنگٹن: کل بروز بدھ کو امریکی حکام اور سرمایہ کاروں نے ساڑھے چار ہزار میگاواٹ کے دیامیر بھاشا ڈیم کی مدد کاوعدہ کرتے ہوئے، اس ڈیم کو اقتصادی ترقی کے لیے پاکستان کا بہترین انتخاب قرار دیا۔

یہ تبصرہ اس ڈیم کے حوالے سے منعقدہ ایک روزہ کانفرنس میں کیا گیا، اس حوصلہ افزاء بیان کے بعد وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان جلد ہی اپنی توانائی کے مسائل پر قابو پالے گا۔

انہوں نے کہا ’’ہم اپنے عہد پر قائم ہیں، اور ہم نے زمین حاصل کرلی ہے اور اس کا بنیادی کام مکمل کرلیا ہے۔ سرمایہ کاروں کو چاہیے کہ وہ اعتماد کے ساتھ آگے بڑھیں کہ ان کے لیے صورتحال سازگار ہے۔‘‘

بعد میں پاکستانی میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے پاکستان کے سفیر جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ اس منصوبے کی لاگت آٹھ سالوں میں وصول ہوجائے گی اور یہ منافع دینا شروع کردے گا۔

یو ایس ایڈ کے ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر راجیو شاہ کا کہنا تھا ’’دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں تیس برس سے زیادہ کا عرصہ لگے گا، اس میں پورے پاکستان کی وسیع البنیاد اقتصادی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کی صلاحیت ہے۔‘‘

انہوں نے کہا ’’اس اجلاس کے انعقاد کے ذریعے ہیں امید ہے کہ امریکی کاروباری شخصیات اور سرمایہ کاروں کے لیے مواقعوں کا راستہ کھلے گا، جس سے اس ڈیم کے خواب کو حقیقت بننے میں مدد ملے گی۔‘‘

پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے ڈینیئل فیلڈمین نے کہا ’’دیا میر بھاشا ڈیم میں سرمایہ کاری پاکستان کے لیے بہترین انتخاب ہے۔‘‘

ڈینیئل فیلڈ مین نے 120 سے زیادہ سرمایہ کاروں اور کاروباری نمائندوں کو یقین دلایا کہ پاکستان کی توانائی اور اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کے ضمن میں کی جانے والی اس کی کوششوں کی حمایت کے لیے وہائٹ ہاؤس اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ پُرعزم ہے۔

وزیرِ خزانہ نے سرمایہ کاروں کو بتایا ’’ہم آپ کو ہر وہ سہولت فراہم کریں گے، جن کی آپ کو ضرورت ہوگی، اس لیے کہ ہمیں بھاشا اور داسو دونوں ڈیموں کی ضرورت ہے۔‘‘

جلیل عباس جیلانی نے دونوں منصوبوں کا ایک مختصر خاکہ پیش کیا۔

دیامیر بھاشا ڈیم ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا۔ 8.1 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی کا ذخیرہ کرنے سے زرعی شعبے میں بھی تقریباً ایک انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ اس سے تیس ملین ایکڑ کی زرعی اراضی کو سیراب کیا جاسکتا ہے اور سیلاب کے نقصاندہ اثرات کو کم کیا جاسکتا ہے۔

اس سے دیگر موجودہ منصوبوں میں بھی مدد ملے گی اور یہ تربیلا ڈیم کی زندگی میں 35 برسوں کا اضافہ کردے گا۔

حکومت نے اس منصوبے کے لیے ناصرف زمین حاصل کرلی ہے، بلکہ ان لوگوں کو معاوضہ بھی ادا کردیا ہے، جو اس کی وجہ سے بے گھر ہوجائیں گے۔

اس منصوبے سے متاثر ہونے والے لوگوں کی کل تعداد ان لوگوں کی تعداد سے کم ہوگی، جو تربیلا اور منگلا ڈیموں کی وجہ سے متاثر ہوئے تھے۔

اس ڈیم کے ممکنہ ماحولیاتی اور سماجی اثرات پر حکومت نے ایک جائزہ پہلے ہی تیار کرلیا ہے، جبکہ امریکا ایک اور جائزہ تیار کرکے گا۔

وزیرِ پانی و بجلی خواجہ محمد آصف، سیکریٹری خزانہ، سیکریٹری ای اے ڈی، اور واپڈا کے چیئرمین نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی۔

جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ اگرچہ پاکستان اپنے سیکورٹی مسائل پر قابو پانے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے، تاہم سرمایہ کاروں کے لیے سیکورٹی باعث تشویش نہیں ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ اس منصوبے پر ہندوستان کے اعتراض کو بین الاقوامی برادری میں سے کسی نے بھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ہندوستان کا اعتراض تھا کہ یہ منصوبہ ایک متنازعہ زمین پر تعمیر کیا جارہا ہے۔

پاکستانی سفیر نے کہا ’’یہاں امریکا میں یا کہیں اور بھی یہ مسئلہ نہیں ہے کہ کوئی ملک اس منصوبے کو مسترد کرسکتا ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ’’یہ سندھ طاس معاہدے کی حدود کے اندر تعمیر کیا جارہا ہے۔‘‘

پاکستانی سفیر نے واضح کیا کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کے لیے عالمی بینک کے 12 ارب ڈالرز کا ایک بڑا حصہ توانائی کے شعبے کے لیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس منصوبے پر پہلے ہی چالیس کروڑ ڈالرز کے خرچ کردیے تھے، ایک اتھارٹی قائم کی تھی، کارکنوں کے لیے ایک رہائشی کالونی تعمیر کی تھی اور اب ان لوگوں کے لیے جو یہاں سے بے گھر ہوں گے، تین ماڈل دیہاتوں کی تعمیر پر کام کررہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس منصوبے کے بارے میں سنجیدہ ہیں اور اس کی معینہ مدت میں تکمیل کی کوشش کررہے ہیں۔

ایک اور میڈیا بریفنگ میں پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ اولس نے بتایا کہ جبکہ پاکستان میں سلامتی کے ماحول کو درپیش چیلنجوں کو ہر ایک نے تسلیم کیا ہے، یہ چیلنجز اس منصوبے پر اثرانداز نہیں ہوں گے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا عمران خان کا دھرنا اس منصوبے پر بھی اثرانداز ہوسکتا ہے تو امریکی سفیر نے کہا ’’اس ملک میں جمہوریت چھ سالوں سے قائم ہے، یہاں اقتدار کی کامیاب منتقلی ہوئی تھی اور موجودہ سیاسی مباحثہ بھی پاکستان کے آئین کی حدود میں ہے۔‘‘

انہوں نے کہا ’’ہم آئین، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے حامی ہیں۔‘‘

یو ایس ایڈ کے پاکستان اور افغانستان کے شعبے کے سربراہ ڈیوڈ لیری سیمپلر کا کہنا تھا کہ سرمایہ کار پاکستانی سیاست کے نشیب و فراز سے آگاہ ہیں اور انہوں نے اس طرح کے دوسرے مقامات پر بھی کام کیا ہے۔

ڈیوڈ نے اس بات سے بھی اتفاق نہیں کیا کہ افغانستان سے امریکی انخلاء بھی بھاشا ڈیم کے منصوبے پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا افغانستان سے باہر نہیں جارہا ہے۔ ہم افغانستان میں مسلسل مضبوط اور مصروف رہیں گے۔ ہمارا مفاد اس خطے میں اب بھی مضبوط ہے۔‘‘

پاکستان میں یو ایس ایڈ مشن کے سربراہ گریگ گوٹلیب نے کہا کہ امریکی سرمایہ کار وسیع اقسام کے توانائی کے منصوبوں میں دلچسپی رکھتے ہیں، اس لیے کہ امریکا توانائی کی مشکلات پر قابو پانے میں اس ملک کے ساتھ کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں