اسلام آباد، مری اور مظفرآباد ٹرین منصوبے پر کام جاری

اپ ڈیٹ 14 اکتوبر 2014
منصوبے کے تحت ’کشمیر ریلوے‘ کے نام سے ایک کمپنی قائم کی گئی ہے، اور ابتدائی طور پر دو ارب روپے بھی جاری کردیے گئے ہیں۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا
منصوبے کے تحت ’کشمیر ریلوے‘ کے نام سے ایک کمپنی قائم کی گئی ہے، اور ابتدائی طور پر دو ارب روپے بھی جاری کردیے گئے ہیں۔ —. فوٹو اوپن سورس میڈیا

اسلام آباد: پیر کے روز کچھ سینیٹرز یہ جان کر حیرت زدہ رہ گئے کہ اسلام آباد، مری اور مظفرآباد کو ٹرین کے ذریعے منسلک کرنے کے اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وفاقی حکومت پہلے ہی ایک کمپنی تشکیل دے چکی ہے اور ایک معاہدہ کےساتھ دو ارب روپے کی ابتدائی رقم بھی فراہم کردی گئی ہے۔

ریلوے سے متعلق سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اراکین کو ایک اجلاس کے دوران آگاہ کیا گیا کہ ’’کشمیر ریلوے‘‘ کے نام سے ایک کمپنی تشکیل دے دی گئی ہے، آسٹریا کی ایک کمپنی کو ایک معاہدے کے تحت پانچ کروڑ ستّرلاکھ کی رقم فزیبیلیٹی رپورٹ کی تیاری کے لیے دی گئی ہے، یہ کمپنی تقریباً 110 کلومیٹر طویل ریلوے کے منصوبے پر اپنی رپورٹ پیش کرے گی، اور اس کام کے آغاز کے لیے دو ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے سینیٹر میر محمد علی رند نے اس اجلاس کی صدارت کی۔

پیپلزپارٹی کے سینیٹر تاج حیدر حیران رہ گئے کہ آخر حکومت نے قانون سازی کے بغیر کس طرح ایک کمپنی تشکیل دے دی۔

انہوں نے کہا ’’یہاں تک کہ ہمیں بھی نہیں معلوم کہ یہ کمپنی کب سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ساتھ رجسٹر ہوئی۔ کس طرح کمپنی کو دو ارب روپے جاری کیے گئے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’بدقسمتی سے کچھ لوگ قانون کو نہایت کم درجے کی اہمیت دیتے ہیں۔‘‘

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ستم ظریفی دیکھیے کہ ایک طرف نئی ریلوے لائن کی پٹریاں بچھائی جارہی ہیں، جبکہ دوسری جانب پرانے پٹریاں خاص طور پر سندھ میں استعمال کے قابل نہیں رہی ہیں۔

پاکستان ریلویز کے نمائندے اشفاق احمد نے سینیٹ کی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے اس منصوبے کی مئی 2014ء میں منظوری دی تھی۔

انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان ریلویز کا ’کشمیر ریلوے‘ کمپنی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، جسے چھ رکنی بورڈ کے ذریعے چلایا جائے گا، ان میں سے چار حکومتی اہلکار ہوں گے اور دو نجی افراد ہوں گے۔

ریلوے کے عہدے دار نے بتایا کہ وزیراعظم کی منظوری کے ایک ماہ کے بعد اس منصوبے کا آغاز کردیا گیا تھا۔ بارہ کمپنیوں نے اس کی فزیبلیٹی رپورٹ کی تیاری کے لیے درخواستیں دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ سب سے کم بولی دینے پر آئی ایل ایف بریٹینڈے (آسٹریا) اور آئی ایل ایف (پاکستان) کو اس کا کنٹریکٹ دے دیا گیا تھا، وہ چھ مہینے کے اندر اندر فزیبیلیٹی رپورٹ تیار کرکے جمع کرائیں گے۔

حکومت نے کنسلٹنٹ سے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد، مری اور مظفرآباد کو ٹرین کے ذریعے منسلک کرنے کے لیے کم از کم تین ممکنہ آپشن تیار کریں۔

وزیراعظم کی اس ذہنی کاوش، یعنی پہاڑوں پر ریلوے کے اس منصوبے کی تعمیر میں پچاس کے قریب پلوں کی تعمیر کی جائے گی اور حکومت کو توقع ہے کہ سالانہ پچاس لاکھ افراد اس سروس کو استعمال کریں گے۔

اس منصوبے کے امکانات کے مطالعے کے لیے تجاویز کی درخواست کے مطابق اسلام آباد سے مری تک کا فاصلہ تقریباً 60 کلومیٹر ہے، اور مری سے مظفرآباد 47 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ پاکستان ریلویز کا موجودہ نیٹ ورک اسلام آباد میں مارگلہ ریلوے اسٹیشن تک ہے، جس سے تقریبا سات کلومیٹر کے فاصلے پر روالپنڈی پشاور سیکشن پر نور پور اسٹیشن واقع ہے۔

کنسلٹنٹ نے اسلام آباد کو مری کے ساتھ براستہ مارگلہ اسٹیشن ایچ-9 سیکٹر، کشمیر ہائی وے، آب پارہ، کنونشن سینٹر اور باہ کہو کے ذریعے منسلک کرنے کے لیے جائزہ لیا ہے۔

ایک دوسرا آپشن یہ ہے کہ اس ریل لنک کا آغاز روات سے کیا جائے اور اسلام آباد ہائی وے کے ساتھ ساتھ گزارتے ہوئے کشمیر ہائی وے سے جوڑ دیا جائے۔

کنسلٹنٹ نے اس راستے کا جائزہ بھی لیا ہے، جو چھترپارک، سالگرن، تریت، گھوڑا گلی، کلدانہ اور جھیکا گلی کے ذریعے گزرتے ہوئے پرانے کشمیر روڈ کے ساتھ ساتھ مری تک چل رہا ہے یا پھر اسلام آباد مری ایکسپریس وے کے ساتھ پھلگراں کے ذریعے گزارا جائے۔

بالفرض کنسلٹنٹ یہ محسوس کرتے ہیں کہ تجویز کردہ راستے استعمال کے قابل نہیں ہیں، تو پھر وہ کسی دوسرے راستوں کا انتخاب کرسکتے ہیں۔

اس سب کے ساتھ کنسلٹنٹ کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ نئے میٹرو بس منصوبے کے ساتھ منسلک مجوزہ قطار مناسب رہے گی، جس پر حکومت پنجاب کی جانب سے راولپنڈی اسلام آباد میں کام جاری ہے۔ جس کا اسلام آباد میں مرکزی ٹرمینل آب پارہ پر ہوگا۔

مری کو مظفرآباد سے منسلک کرنے کے لیے پٹری کو دریائے جہلم کے ساتھ ساتھ لے جایا جائے گا، اور دو مزید راستوں پر بھی غور کیا جائے گا، جس میں سے ایک براستہ بھوربن جاتا ہے۔

ریلوے کی اراضی پر تجاوزات

پاکستان ریلویز کے ایڈیشنل منیجر ٹریفک محمود الحسن نے علیحدہ سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ریلوے کی اراضی پر تجاوزات کے خلاف 700 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا ’’ملک بھر میں ایک لاکھ 67 ہزار چھ سو نوّے ایکڑز کی زمین ریلوے کی ملکیت میں ہے۔ اس میں سے پانچ ہزار چھ سو باسٹھ ایکڑ کی زمین پر 2012ء تک تجاوزات قائم کی گئی تھیں، جس میں سے تین ہزار چار سو بائیس ایکڑز پر نجی افراد نے، ایک ہزار نو سو ننانوے ایکڑز پر دفاعی اداروں نے اور چار سو اکتالیس ایکڑز پر سرکاری محکموں نے قبضہ کرلیا تھا۔‘‘

تاہم انہوں نے مزید بتایا کہ اس صورتحال پر 2012ء میں سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد تین ہزار پچاس ایکڑ کی زمین کو بازیاب کرالیا گیا تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

ahsan Oct 14, 2014 09:20pm
Its is disappointing development actually. They didn't do any up-gradation of Murre Kohala road during last 3 decades and now instead they are opting for rail through high mountains. In an era when people want to get to their destinations as soon as possible they are wasting money in this useless project. Wish they could work on improving roads linking with azad kashmir from pakistan which have not been worked upon since decades. I think it will take atleast a decade to complete and till that time they will not work on linking roads.