سیاسی گرما گرمی، اور فرشتوں کا کھیل

اپ ڈیٹ 23 اکتوبر 2014
الیکشن کے بغیر بھی کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوگا، الیکشن کے ہونے پر بھی کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوگا۔
الیکشن کے بغیر بھی کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوگا، الیکشن کے ہونے پر بھی کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوگا۔

آپ جانتے ہی ہیں آگے کیا ہونے والا ہے۔ سیاسی موسم کا درجہ حرارت بڑھے گا، جبکہ فرشتوں کے بارے میں بھی باتیں سنائی دیں گی۔

ایک بار جب عمران خان نے سڑک کا راستہ اپنایا، تو دوسرے کیسے پیچھے رہ جاتے؟ سیاست پنجاب اور صرف دو بندوں، یعنی عمران اور نواز تک محدود ہوچکی تھی، اس لیے دوسری اطراف سے کچھ شور اٹھنا تو یقینی تھا۔

اور اب جبکہ ناتجربہ کار بلاول اور کمزور ہوچکی پی پی پی کی جانب سے شور اٹھا ہے، تو سیاسی ماحول کچھ گرم ہوا ہے۔ ہر جگہ ریلیاں ہر جگہ جلسے، فضا میں امیدیں اور توقعات، اور منصوبے سے عاری حکومت۔ اس بات پر دوبارہ بحث شروع ہوگی، کہ کیا مڈ ٹرم الیکشن ہوسکتے ہیں؟

اوہو، تو شاید آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ ریلیاں ویسی نہیں کہ الیکشن ہونے والے ہیں۔ آپ صحیح بھی ہوسکتے ہیں۔ لیکن سیاسی کھیل کے اپنے ہی قواعد ہیں، اور شاید ہم وہاں تک پہنچ ہی جائیں؟

صرف اس لیے کہ عمران خان مطالبہ کر رہے ہیں، مڈ ٹرم الیکشن کرانے کے لیے کوئی وجہ نہیں ہے۔ لیکن یاد رکھیے گا کہ مڈ ٹرم الیکشن کرانے میں کوئی آئینی اور قانونی رکاوٹ موجود نہیں ہے۔ اب یہ صرف سیاست کا مسئلہ ہے۔

اور سیاست کے ہر معاملے کی طرح، چیزوں سے نمٹنے کا ایک اچھا طریقہ ہوتا ہے، اور ایک برا طریقہ۔ مڈ ٹرم الیکشن کے لیے ایک اچھا طریقہ، جس سے سسٹم بھی مضبوط ہو، یہ ہوگا کہ ایک سپر ٹریبونل، یا سپریم کورٹ کا انکوائری کمیشن، مئی 2013 کے عام انتخابات میں انتظامی خامیوں اور منظم دھاندلی کا انکشاف کرے۔

لیکن مڈ ٹرم الیکشن کرانے کا برا طریقہ، جس سے سسٹم کو نقصان پہنچے گا، یہ ہوگا کہ مسلم لیگ ن خود کو پیر میں، اور جمہوریت کو چہرے میں گولی مار کر، عمران خان اور طاہر القادری کے دھیمے پڑتے چیلنج کو "ایکشن" میں آنے کا موقع سمجھ بیٹھے۔

بالکل اسی طرح جیسے کہ ن لیگ نے آپریشن ضربِ عضب لانچ ہونے کے صرف دو دن بعد طاہر القادری کے ساتھ کیا تھا، جس کو ماڈل ٹاؤن واقعے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپ سوچیں گے کہ شاید مسلم لیگ ن اب سیکھ گئی ہوگی، لیکن مسلم لیگ ن کے بارے میں ایک بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے، کہ پرانی عادتیں دیر سے چھوٹتی ہیں۔

ایک اور آپشن بھی ہے، جس سے سسٹم کو نہ ہی نقصان پہنچے گا، اور نہ ہی مضبوط ہوگا، اور وہ ہے صرف قومی اسمبلی کے انتخابات۔

صوبائی اسمبلیوں کو اپنی جگہ موجود رہنے دیں، سندھ میں پی پی پی، خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی، پنجاب میں پی ایم ایل ن، اور بلوچستان میں قوم پرست۔ سب کچھ وہیں پر، مقابلہ صرف مرکز میں۔ عمران خان اور طاہر القادری کی طرف سے کھڑے کیے گئے ایڈ ہاک مسئلے کا ایڈ ہاک حل۔

اگر الیکشن صرف قومی اسمبلی کے کرائے جاتے ہیں، تو اس سے صوبوں میں ہر کوئی اپنی جگہ پر فاتح برقرار رہے گا، جبکہ مرکز میں موجود مسئلہ اگلے تین سال کے لیے حل ہوجائے گا، اور اس کے بعد نئے عام انتخابات کرائے جاسکتے ہیں۔

مسلم لیگ ن اس بات کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گی، اور کبھی بات وہاں تک پہنچی بھی، تو مسلم لیگ ن اس کی شدید مخالفت کرے گی، لیکن اب اس جماعت کے لیے اپنا مینڈیٹ بحال کرنے کے لیے مڈ ٹرم الیکشن کی صورت میں صرف ایک ہی راستہ بچا ہے۔

مسلم لیگ ن نے مئی 2013 کے انتخابات میں جو بھی فائدہ حاصل کیا تھا، وہ اب ختم ہوچکا ہے۔ اسے پارٹی کی اپنی غلطی کہیں، غیر جمہوری قوتوں کی کارستانی کہیں، یا عمران خان اور طاہر القادری کی وجہ سے قرار دیں، اب اس بات کی اہمیت نہیں۔

اہمیت اس بات کی ہے کہ مسلم لیگ ن کے لیے جگہ خطرناک حد تک سکڑ چکی ہے، اور اس سکڑتی جگہ کو واپس پھیلانے کے لیے صرف تازہ ووٹنگ ہی ایک حل ہے۔ ورنہ تو اسے 2018 تک ایسے ہی لنگڑا لنگڑا کر مشکلوں سے چلنا پڑے گا۔

لیکن اگر مسلم لیگ ن صرف قومی اسمبلی کے انتخابات پر بھی راضی نہیں ہوتی، تو عمران خان کس طرح نواز شریف کو دوبارہ مکمل انتخابات کرانے پر راضی کرسکتے ہیں؟

یہ بات واضح ہے کہ راستہ پی پی پی کے ذریعے ہو کر جاتا ہے۔ پی پی پی کو سندھ میں تو یقینی طور پر کامیابی ملے گی، لیکن یہ پنجاب میں مشکلات سے دوچار ہے۔ پارٹی کے پاس کوئی منشور نہیں، کوئی کشش نہیں، اور اگر الیکشن 2018 تک ہی ہوتے ہیں، تو تب تک پنجاب میں اس کے امیدواروں میں کچھ دم باقی نہیں رہے گا۔

یا تو انتظار کریں، اور پنجاب سے، اور پھر اسلام آباد سے اپنا مکمل صفایا ہوتے دیکھیں، یا تو اٹھ کھڑے ہوں، اور خراب حال والے امیدواروں اور ناراض ووٹروں کے سہارے کچھ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

لیکن پی ٹی آئی اور پی پی پی کی جانب سے مشترکہ طور پر تختہ الٹے جانی کی اس پوری کارروائی میں ہوگا وہی جو زرداری چاہیں گے۔ اور اس وقت لگتا تو یہ ہے کہ زرداری اپنے جانے پہچانے دشمن، یعنی نواز شریف کو اپنے اجنبی دشمن، یعنی عمران خان پر ترجیح دے رہے ہیں۔

لیکن چلیں اور زیادہ ممکنات کا جائزہ لیتے ہیں۔

ایک مڈ ٹرم، صرف قومی اسمبلی کے انتخابات ہوتے ہیں۔ شاید اس وجہ سے کہ مسلم لیگ ن کچھ حد سے زیادہ احمقانہ قدم اٹھا بیٹے، یا اس وجہ سے کہ ایک سپر کمیشن اس کی راہ ہموار کردے، یا پھر پی ٹی آئی کو الیکشن تک معاملہ پہنچانے کے لیے پی پی پی کی صورت میں اتحادی مل جائے۔

تو پھر؟ مڈ ٹرم الیکشن ایسے الیکشن ہوں گے جو کہ عمران خان کو جیتنے ہی ہوں گے۔

غیر متوقع چیزیں بھی ہوسکتی ہیں۔ کسی نے بھی نہیں، یہاں تک کہ میاں نواز شریف نے بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ان کی جماعت 2013 میں فیصلہ کن اکثریت حاصل کر لے گی، لیکن پنجاب میں اس وقت مقابلہ اتنا سخت ہے کہ یہ پی ٹی آئی اور پی ایم ایل این کے لیے مڈ ٹرم میں مکمل کامیابی حاصل کرنے کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔

اور یہ ہمیں مئی 2013 سے پہلے کے معلق پارلیمنٹ والے اندازوں تک لے جائے گا۔ تین بڑے کھلاڑی، پی ٹی آئی، پی ایم ایل این، اور پی پی پی، اور حکومت بنانے کے لیے دو کی ضرورت ہے۔

زرداری بالکل الٹ بازی کھیل سکتے ہیں، اور مسلم لیگ ن کی خواہش کے خلاف انتخابات تک جاسکتے ہیں، جس سے ایک نئی حکومت وجود میں آسکتی ہے۔ لیکن اس سے ملک کو کیا فائدہ ہوگا؟

یا یہ ہوسکتا ہے کہ پی ٹی آئی اور پی پی پی پارلیمنٹ میں موجود تمام ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے ایک قومی حکومت بنائے، جس میں مسلم لیگ ن شامل نہ ہو۔ لیکن اس سے ملک کو کیا فائدہ ہوگا؟

دونوں ہی صورتوں میں جواب ہوگا، "کچھ بھی نہیں"۔

الیکشن کے بغیر بھی کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوگا، الیکشن کے ہونے پر بھی کچھ زیادہ تبدیل نہیں ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود لگتا ہے کہ گرما گرمی کا موسم قریب ہے۔ "فرشتوں" کے بارے میں بہت زیادہ باتیں اور مباحثے ہوں گے۔ تو شاید ہم بھی وہیں پر پہنچ چکے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر cyalm@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 19 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں