پشاور: ایک وقت وہ بھی تھا، جب ایک مرکزی عسکریت پسندگروپ تھا، تحریکِ طالبان پاکستان، جس کا عام طور پر ایک ترجمان ہوا کرتاتھا۔ عسکریت پسندوں کے کسی بھی بڑے حملے کے بعد اس کے ترجمان کے بیان کی قیمت ہوتی تھی۔

لیکن یہ سب اس وقت تبدیل ہوگیا، جب کہ ٹی ٹی پی نے فاٹا اور ان اضلاع میں جہاں ان کا اثر موجود تھا، اپنی شاخیں اور اپنی فرنچائز کھول لیں، اب ان کے اپنے ترجمان ہیں اور ان کی جانب سے اکثر متضاد بیانات جاری ہوئے ہیں۔

بہت سی چیزیں آپس میں اس وقت گڈمڈ ہونا شروع ہوگئیں، جب بہت سے خفیہ گروپس اُبھر کر سامنے آگئے۔ ان میں سے کچھ نے آگے بڑھ کر اس وقت جب امن مذاکرات ہورہے تھے، موجودہ گروپس کی ذمہ داری بھی خود لینی شروع کردی۔

22 ستمبر 2013ء کو پشاور میں آل سینٹس چرچ پر خودکش بم حملہ اس کی ایک بہترین مثال ہے۔

اس وقت وزیراعظم نواز شریف کی حکومت صلح کی کوششیں کررہی تھی، اس تناظر میں ٹی ٹی پی کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے فوری طور پر اس حملے میں اپنی تنظیم کےملؤث ہونے کی تردید کی۔

احمد مروت کی قیادت میں پس پردہ تنظیم جنداللہ نے اس خودکش بم حملے کی ذمہ داری قبول کی، جس میں 127 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

لیکن ٹی ٹی پی ایک کمانڈر مفتی حسّان نے اس کے فوراً بعد ایک نیوز کانفرنس منعقد کی اور اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔

آج مفتی حسّان ٹی ٹی پی کے ان پانچ سابقہ کمانڈروں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے کھلے عام اسلامک اسٹیٹ آف عراق و شام (آئی ایس آئی ایس) کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کردیا ہے۔

یہ معلوم ہوا ہے کہ مفتی حسّان اور شاہد اللہ شاہد قریبی دوست اور ساتھی ہیں۔

پاکستان میں عسکریت پسندی کا منظرنامہ اپنی تہہ میں اس قدر پیچیدہ اور پھیل گیا ہے کہ اس وقت ایک عسکریت پسند گروپ کو یہ نہیں معلوم ہوگا کہ ایک کارروائی دوسرے گروپس میں سے کس نے کی ہے۔

تردید اور ایک دوسرے کی مذمت کرنا عام سی بات ہے، اور یہ کوئی واحد مثال نہیں ہے کہ واہگہ بارڈر حملے پر بھی اسی طرز کی گرماگرمی جاری ہے، جس میں 60 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

جبکہ اس بات کی توثیق بھی ہوگئی ہے کہ اس حوالے سے بڑی مقدار میں انٹیلی جنس موجود تھی۔

واہگہ بارڈر پر خودکش حملے میں ہلاک شدگان کی میتیں ہسپتال میں رکھی اور ان کے اردگرد ان کے لواحقین غمزدہ کھڑے ہیں۔ —. فائل فوٹو
واہگہ بارڈر پر خودکش حملے میں ہلاک شدگان کی میتیں ہسپتال میں رکھی اور ان کے اردگرد ان کے لواحقین غمزدہ کھڑے ہیں۔ —. فائل فوٹو

احسان اللہ احسان کے بیان پر غور کیجیے۔ انہوں نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے دعوے پر مبنی ایک ای میل بھیجی ہے۔

احسان ٹی ٹی پی کے چیف ترجمان تھے، گزشتہ سال جولائی میں اسلامک امارات آف افغانستان کے خلاف بات کرنے پر ان سے یہ ذمہ داری چھین لی گئی تھی۔ وہ اس الزام کو مسترد کرچکے ہیں۔

اب تحریک طالبان پاکستان جماعت الاحرار کے ترجمان نے میڈیا کو بھیجی گئی اپنی ای میل میں کہا ہے کہ ’’ٹی ٹی پی جے اے واہگہ بارڈر حملے ذمہ داری قبول کرتی ہے۔ ہمارے دوست حنیف اللہ نے اس حملے کو آپریٹ کیا۔‘‘

انہوں نے لکھا ہے ’’یہ ٹی ٹی پی جے اے کے حملوں کا آغاز ہے، اور انشاء اللہ ہم مستقبل میں اس طرح کے حملے جاری رکھیں گے۔‘‘

اور انہوں نے اس سے پہلے جنداللہ کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے دعوے کو مسترد کردیا۔

انہوں نے کہا ’’کچھ دوسرے گروپس نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن ان کے دعوے بے بنیاد ہیں۔ ہم جلد ہی اس حملے کی وڈیو جاری کردیں گے۔‘‘

اب ان کا دعویٰ زیادہ قابل اعتماد لگتا ہے۔

عصمت اللہ معاویہ کی قیادت میں پنجابی طالبان اب متحرک نہیں ہے، انہوں نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے پاکستان میں جہاد ختم کردیا ہے، اور دعوت و تبلیغ پر پلٹ گئے ہیں۔

خان سعید عرف سجنا، جو محسود کی وسیع جنگجو قوت کی قیادت کرتے ہیں، اب حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کی جانب واپس آگئے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ ان پاکستان کے اندر حملے کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

اس صورتحال نے اس نوعیت کے حملے کرنے کے لیے فضل اللہ کی قیادت میں ٹی ٹی پی کی صلاحیت کافی حد تک کم ہوگئی ہے۔

چھوٹے قد اور مضبوط ڈیل ڈول کے مالک اور ملّا ایف ریڈیو کے نام سے شہرت حاصل کرنے والے ملّا فضل اللہ نے سوات میں ٹی ٹی پی کے رہنما کی حیثیت سے جو کچھ بنیاد بنائی تھی، اب وہ محدود ہوگئی ہے۔

سوات میں امن رضاکاروں کو نشانہ بنا کر قتل کرنے کے بڑھتے ہوئے واقعات کو دیکھا جائے تو یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے آبائی علاقے پر اپنی توجہ دوبارہ مرکوز کرلی ہے۔

چنانچہ اپنے وسائل اور نیٹ ورک کے ساتھ جماعت الاحرار کے واہگہ حملے میں ملؤث ہونے کا قابلِ اعتبار امکان باقی رہ جاتا ہے۔

اب جند اللہ اور اس کے روپوش رہنما احمد مروت کو کہاں رکھا جائے؟

سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر اس گروپ کے لیے چند ہمدرد موجود ہیں، ان میں سے زیادہ تر اس کو ٹی ٹی پی سے برگشتہ ایک گروپ خیال کرتے ہیں۔

ان میں سے سب سے بہترین لوگوں کو بھی نہیں معلوم کہ جنداللہ دوردراز علاقوں بشمول پنجاب میں آپریٹ کرتی ہے۔

بہت سے اس کو غلطی سے جنداللہ العالمی سمجھ لیتے ہیں، جو ایک الگ تنظیم ہے، اور بلوچستان اور کراچی کے شہری جنگل میں آپریٹ کرتی ہے۔

جیسا کہ ٹی ٹی پی اب مختلف گروپس میں تقسیم ہوگئی ہے، ان میں سے کچھ بے اثر کردیے گئے ہیں، دوسرے کمزور پڑگئے ہیں یا محدود ہوگئے ہیں، جبکہ ٹی ٹی پی جماعت الاحرار ایک واحد ایسے گروپ کی صورت میں ابھری ہے، جو پاکستان کے اندر حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں