'زندہ جلائی جانے والی مسیحی خاتون حاملہ تھی'

اپ ڈیٹ 06 نومبر 2014
شمع کی اپنے شوہر شہزاد مسیح کے ہمراہ ایک یادگار تصویر۔ —. فوٹو اے ایف پی
شمع کی اپنے شوہر شہزاد مسیح کے ہمراہ ایک یادگار تصویر۔ —. فوٹو اے ایف پی

قصور: پولیس نے بدھ کے روز کوٹ رادھا کشن سے پچاس دیہاتیوں کو گرفتار کیا ہے، جو اس ہجوم کا حصہ تھے، جس نے قرآن پاک کے صفحات کی بے حرمتی کے الزام میں ایک مسیحی جوڑے کو اینٹوں کے بھٹے میں پھینک کر زندہ نذرِآتش کردیا تھا۔

معلوم ہوا ہے کہ وہ تین بچوں کی ماں حاملہ تھی۔

ضلع قصور کے پولیس آفیسر جواد قمر نے ان گرفتاریوں کی تصدیق کی اور کہا کہ ایک مقامی مذہبی رہنما نے اس معاملے کو ہوا دی تھی۔ لیکن ڈی پی او نے اس کا نام ظاہر نہیں کیا۔

زندہ جلا کر ہلاک کیے جانے والے مسیحی جوڑے کے عزیز و اقارب غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
زندہ جلا کر ہلاک کیے جانے والے مسیحی جوڑے کے عزیز و اقارب غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

پولیس اور عینی شاہدین نے ڈان کو بتایا کہ منگل کے روز مساجد سے ہونے والے اعلانات میں گاؤں کے لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ یوسف اینٹوں کے بھٹے پر اکھٹا ہوں، جہاں پچیس برس کی شمع اور اس کا شوہر شہزاد مسیح غلامانہ مزدوری کرتے تھے۔

تین گاؤں سے ایک ہزار سے زیادہ مشتعل افراد کا ہجوم اس کمرے کے پاس پہنچا، جہاں اس مسیحی جوڑے نے پناہ لی ہوئی تھی، انہوں نے اس کمرے کی چھت توڑ کر انہیں وہاں سے نکالا۔ ہجوم نے اس جوڑے کو اینٹوں کی بھٹی میں پھینکنے سے پہلے ان پر تشدد بھی کیا۔

اس ہجوم نے پولیس کے پانچ اہلکاروں کو بھی یرغمال بنالیا، جو اس جوڑے کو بچانے کی کوشش کررہے تھے۔ ان دیہاتیوں نے میڈیا کے کچھ لوگوں کو بھی پکڑ لیا، اور ان کے کیمرے چھین لیے۔

کوٹ رادھا کشن کے سانحے کی تفتیش کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کے اراکین اس بھٹی کے قریب پولیس کے حفاظتی دستے کے ساتھ موجود ہیں، جس میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلادیا گیا تھا۔ —. فوٹو اے ایف پی
کوٹ رادھا کشن کے سانحے کی تفتیش کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی کے اراکین اس بھٹی کے قریب پولیس کے حفاظتی دستے کے ساتھ موجود ہیں، جس میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلادیا گیا تھا۔ —. فوٹو اے ایف پی

وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف نے اس واقعہ کا نوٹس لے لیا ہے۔

وزیراعلٰی نے اس معاملے کی تفتیش کے لیے ایک تین رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے، جو اقلیتی امور کے سیکریٹری، وزیراعلٰی کی انسپکشن ٹیم کے چیئرمین اور ایڈیشنل آئی جی پر مشتمل ہے۔

شہباز شریف کی ہدایات پر قصور پولیس نے اس گاؤں میں اور کلرکاآباد میں مسیحی برادری کی سیکورٹی میں اضافہ کردیا ہے، جہاں زیادہ تر مسیحی آباد ہیں۔ یہ سانحہ جس علاقے میں رونما ہوا، وہ چک 59 سے تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

لاہور سے تقریباً ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر کوٹ رادھا کشن میں زندہ جلائے جانے والے مسیحی جوڑے کے لیے مسیحی برادری کے لوگ دعا مانگ رہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
لاہور سے تقریباً ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر کوٹ رادھا کشن میں زندہ جلائے جانے والے مسیحی جوڑے کے لیے مسیحی برادری کے لوگ دعا مانگ رہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

پولیس نے660 دیہاتیوں کے خلاف ایک مقدمہ بھی درج کرلیا ہے، جس میں وہ 60 افراد بھی شامل ہیں، جنہیں اس ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ چک 59 اور کلرکاآباد جانے والے تمام راستوں کو پولیس نے بند کردیا ہے۔

چک 59 میں مسیحیوں کے تقریباً بارہ گھر ہیں،اور جب نمائندہ ڈان بدھ کے روز وہاں پہنچا تو یہ تمام رہائشی اب یہ گاؤں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

ایک شخص اس کمرے میں چھت کی جانب اشارہ کررہا ہے، جسے توڑ کر ہجوم نے اس کمرے میں پناہ لیے ہوئے مسیحی جوڑے کو باہر نکالا تھا، اور پھر بھٹی میں زندہ جلادیا تھا۔ —. فوٹو اے ایف پی
ایک شخص اس کمرے میں چھت کی جانب اشارہ کررہا ہے، جسے توڑ کر ہجوم نے اس کمرے میں پناہ لیے ہوئے مسیحی جوڑے کو باہر نکالا تھا، اور پھر بھٹی میں زندہ جلادیا تھا۔ —. فوٹو اے ایف پی

مقامی مسلم آبادی بھی ان دیہاتوں کو چھوڑ گئی ہے، اس لیے کہ پولیس ان کے گھروں پر چھاپے مار رہی تھی۔

یہ گاؤں ویران دکھائی دیا، اور کچھ عارضی دکانوں پر مشتمل اس کا واحد بازار بھی بند تھا۔

اس گاؤں کے کئی اطراف پولیس تعینات تھی۔

چوکی فیکٹری ایریا کے سب انسپکٹر محمد علی کی شکایت پر درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق پولیس کو یہ اطلاعات ملیں کہ دیہاتی ایک مسیحی خاتون اور اس کے شوہر پر تشدد کر رہے ہیں۔

پانچ اہلکاروں پر مشتمل پولیس کی ٹیم اس مقام پر پہنچی، لیکن تقریباً 600 مشتعل دیہاتیوں پر مشتمل ہجوم نے اس کمرےکو گھیرے میں لے رکھا تھا، جہاں شمع اور شہزاد مسیح نے ہجوم کے ڈر سے پناہ لے رکھی تھی۔

اسلام آباد میں مسیحی برادری کے لوگ کوٹ راھا کشن کے سانحے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی
اسلام آباد میں مسیحی برادری کے لوگ کوٹ راھا کشن کے سانحے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے ایف پی

کچھ دیہاتیوں نے اس کمرے کی چھت کو توڑ دیا اور اس جوڑے کو زبردستی باہر نکال لیا۔

یہ ہجوم انہیں گھسیٹتے ہوئے بھٹی کے پاس لگے گیا، جہاں بھٹی کا مالک محمد یوسف گجر اور اس کامنشی شکیل اور افضل سمیت 18 ملزمان موجود تھے۔ مبینہ طور پر انہوں نے دہکتی ہوئی بھٹیوں میں سے ایک کا ڈھکن ہٹایا اور اس جوڑے کو اس کے اندر پھینک دیا۔

ایف آئی آر کا کہنا ہے کہ ’’شمع اور شہزاد دونوں کو راکھ میں تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔‘‘

یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھٹے کے مالک اور اس کے ملازمین سمیت ایف آئی آر میں نامزد ملزمان نے چک 59، چک 60، چک روسہ اور چک بھیل میں مساجد کے ذریعے اعلانات کرواکے دیہاتیوں کو تشدد پر اکسایا تھا۔

ان ملزمان نے مسیحی جوڑے کو زندہ جلادیا، پولیس اہلکاروں کے ساتھ مارپیٹ کی اور ہجوم کو جنون پر اکسایا۔

کوٹ رادھا کشن پولیس اسٹیشن نے یہ مقدمہ دفعہ 302، 436، 201، 148، 149، 353 اور پی پی سی کی دفعہ 186 اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت درج کیا ہے۔

مسیحی جوڑے کے رشتہ دار اس مقام پر پھول رکھ رہے ہیں، جہاں انہیں زندہ جلادیا گیا تھا۔ —. فوٹو اے ایف پی
مسیحی جوڑے کے رشتہ دار اس مقام پر پھول رکھ رہے ہیں، جہاں انہیں زندہ جلادیا گیا تھا۔ —. فوٹو اے ایف پی

بدھ کے روز پولیس نے انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت کے سامنے گرفتار کیے گئے 43 افراد کو پیش کیا، جن میں سے چار کو ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا، جبکہ باقی 39 کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔

ایک مقامی مسلم رہائشی بلقیس نے ڈان کو بتایا کہ شمع اس گاؤں میں صائمہ کے نام سے جانی جاتی تھی، اس کی شادی شہزاد مسیح سے تقریباً آٹھ سال پہلے ہوئی تھی۔ دو سے سات سال کے درمیانی عمر کے ان کے تین بچے تھے۔

انہوں نے کہا کہ شمع اس سانحےکے وقت حاملہ تھی۔ شمع کے سسر نذیر مسیح ایک عامل تھے، اور چند ہفتے قبل ان کی وفات ہوئی تھی۔ ان کی وفات کے بعد شمع نے ان سے متعلق کچھ چیزیں جن میں کاغذات بھی شامل تھے، جلادیے تھے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شمع ان پڑھ تھی۔

بلقیس کا کہنا تھا کہ ایک پھیری والا جب اس بھٹی سے گزرا تو اس کو وہاں قرآن پاک کے کچھ صفحات ملے، اور اس نے یہ صفحات گاؤں والوں کو دکھائے۔ بعد میں منگل کی صبح ہزاروں دیہاتی اس بھٹے پر اکھٹا ہوئے اور شمع کی بات سنے بغیر اس جوڑے کو زندہ جلادیا۔

انہوں نے بتایا ’’وہ چلاتی رہی کہ وہ نہیں جانتی کے ان کاغذات میں کیا لکھا ہے، لیکن کسی نے اس کی بات نہیں سنی۔‘‘

بلقیس کے خاندان کے ایک رکن عبدالشکور کا کہنا تھا کہ ہجوم نے جو کچھ کیا اس کو کسی طرح جائز قرار نہیں دیا جاسکتا اور اس نوجوان جوڑے کے ساتھ اس کا سلوک وحشیانہ اور غیرانسانی تھا۔

بھٹہ مالکان کی آل پاکستان تنظیم کے جنرل سیکریٹری مہر عبدالحق نے ڈان کو بتایا کہ اس بھٹے کے مالک کو جسے اس مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے، حالانکہ وہ اس سانحہ کے موقع پر موجود نہیں تھا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی شفاف انکوائری کی جائے۔

اسی دوران مسیحی برادری کے افرد نے کوٹ رادھا کشن میں بدھ کے روز ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔

تبصرے (14) بند ہیں

کامریڈغلام رسول Nov 06, 2014 11:31am
قصورمیں بھٹہ مزدور میاں بیوی کو نذرآتش کرنے کاواقعہ وفاق اور صوبوں میں حکومتی رٹ کے نہ ھونے کانتیجہ ھے۔ملک میں عملآ مذھبی شدت پسندی اوردھشت گردی کی رٹ قائم ھے۔ جوگولہ بارود کےساتھ ساتھ توھین رسالت و مذھب کےقانون کوھتیار واپنے اختیار کے طور پراستعمال کررھے ھیں اور ان کودرپردہ ریاستی ادروں میں موجودمذھبی شدت پسند ذھنیت کی حمائیت حاصل ھے۔ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پنجاب کی صوبائی کمیٹی کے سیکرٹری کامریڈ غلام رسول نے اس انسانیت سوزواقعی کی پرزور مذمت کرتے ھوئے اپنے اخباری بیان میں مزید یہ کہاکہ اس واقعہ سے قبل بھی پنجاب کے مختلف اضلاع میں گرجےاور بستیوں کو نزرآتش کرنے کےواقعیات رونما ھوئےجن کے ملزموں کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔ تشویش ناک صورت حال یہ ھےکہ کہ مختلف شبعۃ زندگی سے تعلق رکھنے واے محنت کش 1886کے شگاگو کےمزدوروں سے بدترغلامی کی زندگی گزار رھے ھیں اس سانحہ سے پہلے لاھور،کراچی میں مزدور آگ کی ھولی کی نزرھوچکے ھیں۔سب سے بری حالت چائلڈلیبر،گھروں میں کام کرنے والے ورکرز،کھیت مزدور خواتین اور بھٹہ مزدوروں کی ھےجوجسمانی اور جنسی تشدد کا بھی شکاربنتے ھیں۔ محکمہ لیبر ڈیپارٹمنٹ،سوشل سیکورٹی، اولڈ ایج بینی فٹس کے اداروں کی کارگزاری بھی غیر اطمنان بخش ھے۔کامریڈ غلامرسول نے کہا وفاقی و صوبائی حکومتیں مزدوروں کے حالات کار بہتر کرنے کےلئےعالمی ادارہ محنت(I.L.O)کے میثاق 1،کم از کم عمر(کانٹ چھانٹاوربھٹی جھونکےوال کےلئے)ککےمیثاق1921نمسر2رات کے وقت کام(خواتین)کے نظرثانی شدہ 1934نمبر3 کماز کمعمر صنعتی مزدورکےنظرثانی شدہ میثاقا937کو علاوہ مزدوروں کے آئینی حقوق کے آرتیکل25(1)،آرٹی
imran Nov 06, 2014 11:34am
yar ye ho kia rha hy
imran Nov 06, 2014 11:34am
:(
Hazbullah Nov 06, 2014 11:47am
everythings is possible in Pakistan
saleem Nov 06, 2014 12:15pm
@imran: it is misuse of religion
راضیہ سید Nov 06, 2014 12:42pm
ایک اسلامی فلاحی ریاست کا دعوی کرنے والی حکومت کے دور میں یہ واقعہ نہ صرف دلسوز ہے بلکہ انسانیت کے بھی خلاف ہے ، کیا یہی انسانیت کا درس ہے کہ غیر مسلم افراد کو محض شک ، شبہ اور تعصب کی بنا پر مار دیا جائے ان سے زندگی کا حق چھین لیا جائے اور دادرسی کی بجائے ان کے زخموں پر نمک پاشی کی جائے ، ہمارے مسیحی بہن بھائیوں نے بھی اس پاکستان کے لئے اتنی قربانیاں دی ہیں جس پاکستان میں قائد اعظم نے اقلیتوں کے ساتھ بہتر سلوک کی ہدایت کی تھی ، ہمارے نبی اخر الزمان نے بھی ذمیوں کو ان کے پورے حقوق دینے کی بات کی ، کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ہم نے انسانی جان کی قدر بھی کھو دی ہے ، کوئی ہمارے سامنے اپنی جان کی بازی بھی ہار جائے تو ہم اف تک نہیں کرتے یہ رویہ بہت الارمنگ ہے نہایت افسوس ناک ہے اور یہ نہایت رنج سے کہنا پڑتا ہے کہ اب حدود ارڈنینس اور یہ توھین رسالت والے قوانین کا بہت غلط استعمال ہو رہا ہے ۔
zehra Nov 06, 2014 12:48pm
کیا اس حالت میں اس خاتون پر کوئی شرعی حد جاری ہو سکتی ہے؟
ibrahim Nov 06, 2014 06:31pm
ye aik antehai afsus nak waqayi hay mahz shak hawr shube ki bunyad pr kisi non muslim ki jan lina islam to non muslim ko bohat haqooq daita
Nadeem Nov 06, 2014 08:44pm
میں بحیثیت مسلمان عیسائی برادری سے دلی دکھ کا اظہار کرتا ہوں اور شرمندہ ہوں کہ یہ ظلم مسلمانوں نے کیا. اور ریاست کے رکھوالوں اور حکمرانوں کو ایک قول یاد دلانا چاہتا ہوں ک " اگر دریائے دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو عمر اس کا زمہ دار ہوگا.
Rabia Nov 07, 2014 02:18am
Jin logon ne itnay wehshiyana tariqay se us couple ki jaan li hai, wo aakhir konsay islam pe amal kar rahay thay? Hmara deen to hmen ye berehmi nhe sikhata. Hadd darja koi insaniyat se gir gye hein hm log
syed Ali Nov 07, 2014 09:51am
Salam May be a Muslim is waqay k Muzamat karta hon aur apny Muslim Bhon say request karta kay pls. bad may afsos karnay k bajay phlay he waqai k tesdik kia karain.
umair zaman Nov 07, 2014 12:54pm
kasoor ka waqya bohat afsos nak tha mujhe bohat bohat afsos hua k muslim srf naam k muslim hein jis ne is jorre ko zinda jalaya woh musalman ni balke musalman k naam per gaalli hai.. hamare islam mein esi koe bat ya kitab ni hai jis mein kisi dusre insan k sath itne neach harkal itni galeez harkat krte ki ijazat di ho. hamare pyare nabi ne yahoodyun ko musalman unka dil jeet k kia unko gali galoch ya kisi ko necha dekha k ni kya phir is joore k sath itni wehshat kyun zahir ki????? mein to srf ye kahunga k asal bat taleem ki hai ap sub apne bachon ko achi taleem dein kyun k unka demagh khulega woh broad mind hojaege acha sochenge ache or bure mein farak rakhna sekhenge
قمرالزماں خان Nov 07, 2014 06:16pm
عبدالحق نامی جنرل سیکریٹری بھٹہ یونین کو بھی اس کیس میں گرفتار کرنا چاہئے تاکہ بھٹوں میں جلانے والے تمام واقعات کے ذمہ داران کے خلاف تادیبی کاروائی عمل میں لائی جاسکے۔ مگر یہ واقعہ تو ان واقعات کا تسلسل ہے جس کے تحت سندھ مین ہندوں کی لڑکیاں اغوا کی جارہی ہیں۔ عیسائیوں کو توہین مذہب اور توہین رسالت کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے۔ قادیانیوں کا اس ملک میں جینا حرام کردیا جاچکا ہے۔ گجرات اور لاہور میں مسیحوں کی بستیوں کوتاراج کیا گیا ۔ زندہ جلا دینا والا واقعہ پہلا نہیں بلکہ ایک سیریل چلی رہی ہے۔ کسی ملزم کو سز ا نہیں دی جاتی ۔ البتہ کسی پر توہین مذہب یا توہین رسالت کاالزام لگادیا جائے تو اسکو اپنی صفائی کاموقع تک نہیں فراہم کیا جاتا۔ یہ ہے اسلامی جمہوریہ اسلامی پاکستان
imran james Nov 08, 2014 01:49am
Intaha ho gye hai zulam ke.