استعفوں کا کھیل

08 نومبر 2014
پارلیمنٹ چھوڑنا اتنا مشکل نہیں ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ جو طریقہ کار موجود ہے وہ اس لیے تاکہ جبری استعفوں کو روکا جاسکے۔
پارلیمنٹ چھوڑنا اتنا مشکل نہیں ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ جو طریقہ کار موجود ہے وہ اس لیے تاکہ جبری استعفوں کو روکا جاسکے۔

جب کبھی بھی سیاستدان چھوٹے چھوٹے قانونی نکات پر بحث کرنے لگیں، تو آپ یہ بات باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ سیاست کھیلی جارہی ہے۔

پارلیمنٹ چھوڑنا اتنا مشکل نہیں ہے، اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ جو طریقہ کار موجود ہے، وہ اس لیے تاکہ جبری استعفوں کو روکا جاسکے۔

لیکن جبری استعفے اس طرح کے نہیں جیسے کہ مسلم لیگ ن کا کہنا ہے۔ موجودہ طریقہ کار اس لیے موجود ہے تاکہ کوئی بھی پارٹی اپنے کسی ممبر قومی اسمبلی سے ناخوش ہونے، یا کسی ناجائز وجہ سے اسے پارلیمنٹ سے باہر نہ نکال سکے۔

ہاں، تحریکِ انصاف، عمران خان اپنے ان کئی ممبرانِ قومی اسمبلی سے ناخوش ہیں جو استعفے نہیں دے رہے۔ لیکن عمران خان اپنے کسی بھی باغی ممبر کو پارلیمنٹ سے باہر نہیں نکلوانا چاہ رہے۔ تو پھر مسئلہ کیا ہے؟

سیاست پر واپس آتے ہیں۔ تحریکِ انصاف کے ممبرانِ قومی اسمبلی کی تین قسمیں ہیں۔

جن قابل امیدواروں کو عمران خان نے پچھلے سال پارٹی کے پلیٹ فارم سے کھڑا کیا تھا، وہ انتخابی سیاست کا بنیادی اصول جانتے ہیں، کہ میدان کو کبھی بھی اپنے مخالف کے لیے خالی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ حلقوں میں اثر رکھنے والے سیاستدانوں کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ کر سائیڈ پر ہوجانا سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔

وہ چھوڑنے میں خوش نہیں ہیں۔ کچھ نے تو صاف انکار بھی کردیا ہے۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو چھوڑنے پر آمادہ ہوگئے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ عمران کے ساتھ رہنے پر وہ انتخابی میدان کا حصہ بنے رہیں گے۔

اس کے علاوہ پہلی بار کے ایم این اے ہیں، جو صرف اس لیے جیتے کہ عمران خان مئی 2013 میں پاکستانی قوم کی واحد امید تھے، اور یہ عمران خان کی شہرت تھی جس نے انہیں انتخابات میں غیرمتوقع فتح دلائی۔

وہ اس بات پر بالکل بھی خوش نہیں ہیں کہ انہیں چھوڑنے کے لیے کہا جارہا ہے، لیکن ان کے ستارے عمران خان کے ساتھ وابستہ ہیں، اس لیے وہ جہاں جائیں گے انہیں بھی جانا پڑے گا۔

اس کے بعد مسائل پیدا کرنے والے لوگ ہیں: پی ٹی آئی کے وہ امیدوار جو 2013 میں نہیں جیتے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو پی ٹی آئی کے پارلیمنٹ چھوڑ دینے سے سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔

کوئی بھی ایسا اقدام، جس سے مڈٹرم انتخابات کی ذرہ برابر بھی امید بندھے، اور دوبارہ انتخاب لڑنے کا موقع ملے، یہ اس اقدام کی حمایت ضرور کریں گے۔

اور مسائل پیدا کرنے والوں کے بعد بہت ہی کم، میرا مطلب ہے بہت ہی کم تعداد میں وہ لوگ ہیں جو باس کو شک کا فائدہ دینا چاہتے ہیں کیونکہ بہرحال وہ باس ہیں اور ایسے شخص سے سوال جواب کرنا موزوں نہیں جو قابلِ بحث طور پر پاکستان کے سب سے مشہور سیاستدان ہیں، اور جنہوں نے کوئی نمائندگی نہ رکھنے والی ایک جماعت کو پچھلے سال کے انتخابات میں دوسری پوزیشن دلائی۔

ایسی کسی بھی کیٹیگری میں ایک رکنِ قومی اسمبلی کا استعفیٰ تاخیر کا شکار نہیں ہوسکتا، اور نہ ہی ہونا چاہیے۔ لیکن اب تک بھی پی ٹی آئی کے کسی بھی ایم این اے کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا ہے۔

اب آئیں پی ایم ایل این کی بات کرتے ہیں۔

پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ ن اس کے ممبرانِ قومی اسمبلی کو پارلیمنٹ میں رہنے کے لیے رشوت دینا چاہ رہی ہے۔ لیکن پی ایم ایل این کو یہ بات معلوم ہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ ایم این اے واقعی پارٹی چھوڑنا چاہتے ہیں۔

تو کیوں نہ اس پورے مرحلے کو طویل کردیا جائے، اور دیکھا جائے کہ کیا کوئی اندرونی یا بیرونی عوامل عمران خان کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں؟

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پی ایم ایل این کیوں یہ چاہے گی کہ تحریکِ انصاف اسمبلی سے باہر جانے کے بجائے اسمبلی میں ہی رہے۔

موجودہ پارلیمنٹ کی آئینی اور قانونی حیثیت کو ایک طرف رکھیں۔ قومی اسمبلی میں موجود ایک ایسی جماعت جس نے عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں، اگر اسمبلی چھوڑ جائے تو پارلیمنٹ کا سیاسی جواز باقی نہیں رہے گا۔

لیکن جیسا کہ پی ایم ایل این کے ساتھ کافی وقت سے ہورہا ہے، آپ اس بات کو آسانی سے محسوس کرسکتے ہیں کہ پی ایم ایل این کے سیاسی داؤ اسٹریٹیجی کم اور چھوٹا پن زیادہ ہے۔ کیونکہ عمران خان چاہتے ہیں کہ پی ٹی آئی اسمبلی چھوڑ دے، اس لیے پی ایم ایل این اسے پی ٹی آئی کے لیے مشکل سے مشکل بنا دینا چاہتی ہے۔

شاید اگر عمران خان نے یہ کہا ہوتا کہ تحریکِ انصاف پارلیمنٹ میں رہ کر اندر سے جدوجہد کرنا چاہتی ہے، تو پی ایم ایل این ان کا مذاق اڑاتی، اور انہیں اس بات پر مجبور کرتی کہ وہ پی ٹی آئی کو اسمبلی سے باہر لے جائیں۔

اگر عمران یہ چاہتے ہیں، تو پی ایم ایل این اس کی مخالفت کرے گی۔ اگر عمران ایک خواب دیکھتے ہیں، تو پی ایم ایل این اسے توڑ دے گی۔ پی ایم ایل این کی پوری اسٹریٹیجی صرف یہی ہے۔

اگر دو مہینوں کے اندر اندر پی ٹی آئی کی خالی کردہ 25 یا اس سے کچھ زیادہ ضمنی انتخابات ہوجائیں، تو پی ایم ایل این کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟

یہ تمام سیٹیں اس وقت پی ٹی آئی کے پاس ہیں۔ اگر پی ٹی آئی آزاد امیدواروں کی حمایت کر کے ان میں سے تمام سیٹیں جیت جائیں، تو وہ پارلیمنٹ میں اپنی اصل پوزیشن تک پہنچ جائے گی۔

لیکن اگر پی ٹی آئی اس میں سے اگر کچھ سیٹیں بھی ہار گئی، تو یہ محسوس ہوگا کہ پارٹی اور عمران کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ صوبائی سطح پر اگر پی ٹی آئی کی سیٹوں کا جائزہ لیا جائے، تو پنجاب میں صرف کچھ سیٹیں، جبکہ خیبر پختونخواہ میں اکثریت، یہ صورتحال بھی پی ٹی آئی کے خلاف ہے۔

خیبر پختونخواہ وہ واحد صوبہ ہے جہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ اور اگر وہاں سے پارٹی نے کچھ سیٹیں بھی ہار دیں، تو یہ تاثر پھیلے گا کہ پی ٹی آئی اپنے ہی انتخابی میدان میں مشکلات کا شکار ہے۔ پنجاب میں تمام سیٹیں واپس جیت جائیں، تو بھی یہ اس پوزیشن میں نہیں ہوں گے، کہ پی ایم ایل این کو مشکلات میں ثابت کرسکیں۔

اور یہ تو صرف ضمنی انتخابات ہی ہیں، جن کے بارے میں لوگ ویسے بھی جلد ہی بھول جاتے ہیں۔ کیا NA-149 کے لوگوں کے علاوہ اب بھی کوئی ہاشمی کی شکست کے بارے میں بات کر رہا ہے؟

اس کے علاوہ قسمت پی ٹی آئی کے پاس ایک اور چھوٹا سا سرپرائز بھی ہے۔ مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہوں گے، جس میں خیبر پختونخواہ اسمبلی کو 11 سینیٹرز سینیٹ میں بھیجنے کا موقع ملے گا۔ وہی خیبر پختونخواہ اسمبلی جو پہلے ہی عمران خان کی حکم عدولی کرچکی ہے۔

پی ٹی آئی پہلی بار ایوانِ بالا تک رسائی حاصل کرپائے گی، اور ایوانِ زیریں میں اس کی غیرموجودگی سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔

تو کیوں نہ پی ٹی آئی کو ابھی جانے دیا جائے، اور معاملات ایسے چلنے دیے جائیں۔ شاید نہیں۔ عمران خان تب بھی ملک بھر میں پارلیمنٹ کو برا بھلا کہتے رہیں گے۔

لیکن اگر پی ایم ایل این پی ٹی آئی کو نہیں جانے دیتی، تو بھی یہ پی ٹی آئی ممبران کو کچھ ایسی چیز دینے سے لاتعلق نظر آتی ہے، جس سے وہ عمران خان کو اسمبلی میں رہنے پر قائل کرسکیں۔

اور اس طرح پی ایم ایل این اور پی ٹی آئی کی یہ نہ ختم ہونے والی کہانی جاری رہے گی۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر cyalm@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 2 نومبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں