پنجاب میں رواں سال تیزاب سے حملے کے 42 واقعات

اپ ڈیٹ 24 نومبر 2014
تیزاب پھینکے جانے سے متاثرہ ایک خاتون اپنے ہاتھ کے زخم دکھا رہی ہیں— رائٹرز فوٹو
تیزاب پھینکے جانے سے متاثرہ ایک خاتون اپنے ہاتھ کے زخم دکھا رہی ہیں— رائٹرز فوٹو

لاہور : نورین جبار نے پٹی ہٹا کر ایک سوجا ہوا سیاہ سوراخ دکھایا جو پہلے کبھی اس کی آنکھ ہوا کرتا تھا۔

اس نے لڑکھڑاتی آواز اور درست آنکھ سے بہتے آنسوﺅں کے ساتھ بتایا، حالانکہ وہ خود کو رونے سے روک رہی تھی کیونکہ اس سے بھی بہت تکلیف ہوتی ہے "دیکھیں اس شخص نے میرے چہرے کا کیا حال کیا"۔

نورین کے ساتھ ایسا اس وقت ہوا جب وہ اپنی تین بیٹیوں کو اسکول چھوڑ کر واپس آ رہی تھی کہ اس کے سابق شوہر عظیم، جس نے تین ماہ قبل ایک جھگڑے کے بعد اسے طلاق دے دی تھی، نے اچانک اسے پیچھے سے دبوچا اور بچوں کے چہرے چھپا دیئے اور جب نورین نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو تیزاب کی دھار اس کے چہرے کی بائیں جانب گری۔

اس کا کہنا ہے "اس نے مجھے طلاق کے بعد سے ہی دھمکانا شروع کردیا تھا اور کہتا تھا کہ اگر میں اس کی نہیں تو کوئی اور بھی میرا نہیں ہوسکتا"۔

نورین کا مزید کہنا تھا "تیزاب نے میری بیٹیوں کو نقصان پہنچایا، ان کے بازو جل گئے، میری سب سے بڑی بیٹی صرف سات سال کی ہے"۔

نورین کے بھائی شکیل کا کہنا ہے کہ اگرچہ پولیس عظیم کو تلاش کرنے کی کوشش کررہی ہے مگر وہ کہیں روپوش ہوگیا ہے "بدقسمتی سے ہمارے علاقے گلشن راوی (لاہور) اور نورین کے علاقے قلعہ گجر سنگھ میں کوئی ایک سیاسی نمائندہ بھی ہمارے پاس نہیں آیا"۔

نورین کی طرح رواں برس متعدد خواتین تیزاب پھینکے جانے کے حملوں کا ہدف بنی ہیں، عورت فاﺅنڈیشن کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جنوری سے ستمبر 2014 تک تیزاب پھینکنے کے 42 کیسز (نورین کا واقعہ نکال کر) صرف پنجاب میں ہی ریکارڈ ہوئے ہیں، جس میں 51 خواتین اور 8 مرد نشانہ بنے۔

حوصلہ شکن امر یہ ہے کہ 2012-13 میں تیزاب پھینکنے کے حملوں میں تیرہ فیصد کمی دیکھنے میں آئی تھی مگر 2014 کے اولین نو ماہ کے دوران اس میں اضافہ ہوا ہے۔

رواں برس کے اوائل میں ایک اور این جی او ایسڈ سروائیور فاﺅنڈیشن نے خواتین کے حوالے سے قائم پنجاب کمیشن اور امور خواتین کی پارلیمانی کمیٹی کو بتایا تھا کہ پاکستان میں تیزاب سے حملے کے 56 فیصد واقعات پنجاب میں سامنے آتے ہیں۔

اس این جی او کے ایک عہدیدار کے مطابق 65 فیصد واقعات میں خواتین اور پندرہ فیصد میں بچے تیزاب اور جلائے جانے کے واقعات میں نشانہ بنتے ہیں، جبکہ اسی فیصد متاثرین کی آمدنی آٹھ ہزار ماہانہ سے بھی کم ہے۔

دوسری جانب عورت فاﺅنڈیشن کے مطابق رواں برس کے 42 میں سے بائیس واقعات پنجاب کے دیہی علاقوں میں سامنے آئے، تاہم شہری علاقوں میں خطرناک اضافہ ہوا اور یہ تعداد سترہ رہی۔

اس حوالے سے فیصل آباد اور رحیم یار خان میں پانچ، پانچ کیسز سامنے آئے، خانیوال میں چار، راولپنڈی میں تین، اوکاڑہ، قصور، وہاڑی، بہاولپور اور بہاولنگر میں دو، دو جبکہ گوجرانوالہ، گجرات، نارووال، سیالکوٹ، جھنگ، شیخوپورہ، ملتان، ساہیوال اور مظفرگڑھ میں ایک، ایک واقعہ ریکارڈ ہوا۔

اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے واقعات کا بڑا سبب گھریلو تنازعات ہوتے ہیں، تیزاب سے حملے کے 42 میں سے 12 واقعات گھریلو جھگڑوں کا نتیجہ تھے، بیشتر متاثرہ خواتین شادی شدہ تھیں جبکہ کچھ تعداد مطلقہ خواتین کی بھی تھی۔

تیرہ واقعات میں حملہ آور خاتون کا شوہر تھا جبکہ دیگر واقعات کے ملزمان میں سابق شوہر اور سسرالی رشتے دار ہی نمایاں نظر آتے ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ مخالفین یا پڑوسیوں کی جانب سے بھی کافی تعداد میں یہ بھیانک جرم کیا گیا۔

گھریلو تنازعات کے علاوہ ان کیسز کی دیگر اہم وجوہات میں انتقام، طلاق کی رنجش، وٹہ سٹہ، مالی تنازعات، شادی کی پیشکش مسترد کرنا، ناجائز تعلقات کا شبہ، اپنی پسند کی شادی، شوہر سے جھگڑا، جائیداد کے تنازعات اور خاندانی جھگڑے وغیرہ شامل ہیں۔

یہاں تک کہ ایک کیس ایسا بھی سامنے آیا جس میں ایک خاتون کے اوپر بیٹی کو جنم دینے پر تیزاب پھینک دیا گیا۔

ان واقعات کا تسلسل اس حقیقیت کی نشاندہی کرتا ہے کہ مارکیٹ میں تیزاب انتہائی آسانی سے دستیاب ہے، اگرچہ پولیس اور قانون سازوں، دونوں کا کہنا ہے کہ شناختی کارڈ کے بغیر تیزاب خریدنے کی قانونی طور پر ممانعت ہے، مگر اس پر بہت کم ہی عملدرآمد ہوتا ہے۔

مسلم لیگ نواز کی رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ قانون اور اس کے عملدرآمد کے درمیان کافی بڑا خلاء ہے "تیزاب کے حملوں میں اضافے کو دیکھتے ہوئے پولیس سمیت مختلف اداروں میں خواتین کے تحفظ کی صورتحال کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، اس حوالے سے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ آخر قانون پر عملدرآمد میں ناکامی کیوں ہو رہی ہے، بدقسمتی سے عملدرآمد نہ ہونے کے باعث خواتین کے خلاف سنگین تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے"۔

ان کا کہنا تھا کہ مقامی انتظامیہ ان واقعات خاص طور پر تیزاب پھینکنے کے کیسز کی ذمہ دار ہے کیونکہ اس کی غفلت کی وجہ سے ہی مارکیٹ میں تیزاب تک رسائی اور فروخت بہت آسان ہے۔

عورت فاﺅنڈیشن پنجاب کی ڈائریکٹر ممتاز مغل نے بھی ضلعی انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرایا مگر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ درحقیقت یہ محکمہ ایکسائز کی ذمہ داری ہے کہ وہ تیزاب کی فروخت پر نظر رکھے' اس حوالے سے پوائزن ایکٹ میں ایک ترمیم کرتے ہوئے جلانے والی تمام اشیاء جیسے زہر اور تیزاب کی خرید و فروخت پر بغیر نسخے اور شناختی کارڈز کی رجسٹریشن کے بغیر پابندی عائد کردی گئی تھی، دکانداروں کو خریدار کی شناختی کارڈ کی ایک کاپی لازمی رکھنا چاہئے"۔

مگر یہ نورین جیسی خواتین کے لیے کتابی قوانین ہیں اور مانا جاتا ہے کہ اسے حکومت کی جانب سے کوئی معاوضہ نہیں ملے گا اور نا ہی وہ اپنے تینوں بچوں کے لیے مالی تحفظ حاصل کرسکے گی "میرا واحد ذریعہ آمدنی کپڑوں کی سلائی تھا مگر اب میں کیسے کماﺅں گی"؟

تبصرے (0) بند ہیں