فائل فوٹو --.

"تیسری باری تختِ اقتدار تک لے جانے والا سرخ استقبالیہ قالین ابھی تک خونِ بے نظیر سے لال ہے۔"

اقتدار تک پہنچتے ہی یہ پہلا سبق اس نے بھی بھولا تھا۔ پتہ نہیں اس کو اقتدار کا غرور کہیں یا ہیوی مینڈیٹ کا نشہ کہ اس نے تیسری بار وزیرِاعظم کا حلف لیتے ہی اس شخصیت کو خراج پیش کرنے میں تنگ دلی کا مظاہرہ کیا، جس نے اسے ذلّت ناک جلاوطنی سے نکال کر نہ صرف رائے ونڈ میں مدفون، ابا جی کی آخری آرامگاہ کو چومنے کا موقع دیا بلکہ منصبِ اعلیٰ تک پہنچنے والے رستے کو بھی اپنے خون سے رنگین کیا۔

انکے طرزِ حکمرانی سے کتنا ہی اختلاف سہی، مگر کیا یہ سچ نہیں تھا کہ بھٹو کے کنبے کا ہر فرد پاکستان میں جہموریت کی راہ میں جان سے گیا؟

پاکستانی ریاست کا یہ کتنا بھیانک سچ تھا کہ ابھی تو بھٹو کے ہمعصر بھی سیاست سے ریٹائر نہ ہوئے تھے کہ اسکا پورا کنبہ اس ملک میں جمہوریت کی راہ سیدھی کرتے کرتے موت کی نیند سلا دیا گیا-

اور جب اصفہان کی مٹی سے بنی، اسکی شریک سفر اور مادرِ جہموریت، اپنے آخری سفر کو گڑہی خدابخش روانہ ہوئیں تو بے اختیار دل یہ کہہ اٹھا کہ یہ ریاست اصفہان کی اس خاک کی سدا مقروض رہے گی- جسکا نام نصرت تھا کہ اس نے اپنے کنبے کے سارے افراد کو ایک ایک کر کے اس ریاست کے گیسوِ جمہور سنوارنے کے لئے وار دیا۔ نصرت کے کنبے کے خونِ رائیگاں سے انصاف تو تب ہی ممکن ہو سکے گا جب حقیقتاً لگے کہ یہ اقتدار عوام کی امانت ہے-

اس اقتدار تک پہنچنے والے راستے کو دل کی خوشنودی کے لیئے کتنا بھی جمہوریت کا رنگ دیں مگر جس جمہوریت میں اقتدارعوام کی ملکیت سمجھا جاتا ہے- وہ راستہ دلی دور است کی طرح ابھی خواب کی سرزمین پہ ہی سربستہ ہے-

نہ جانے کتنی آنکھیں اس وقت ٹھنڈی ہوئی ہونگی جب وہ ایک بار پھر ہیوی مینڈیٹ سے وزیرِ اعظم کا حلف اٹھانے کے قابل بنے- اور نجانے کتنی آنکھون کے کونوں میں نمی اتری ہو گی جب ایوانِ صدر کے استقبالیہ دروازے پہ آصفہ بھٹو کو انہوں نے مستقبل کے وزیراعظم کواس وقت پھولوں کا گلدستہ پیش کرتے دیکھا ہو گا جب وہ اپنے منصبِ اقتدار کا حلف اٹھانے آئے تھے-

پاکستان میں سدا سے سیاست اک گندہ دھندہ سہی مگر یوں فیملی انٹرپرائز کبھی نہ بنی تھی- ممکن ہے یہ بھی جمہوریت کا ہی حسن ہو مگر اس سےانکار کہاں ممکن ہے کہ سیاست میں باڈی لینگوئج کے اس بیانیے میں اقتدار عوام کی امانت کے بجائے کچھ خاندانوں کی در کی لونڈی دکھائی دے رہا تھا- جسکی منتقلی میں جنابِ صدر بمع خاندان، کشادگیِ دل کے مظاہرے میں فیاضی دکھانے کی کوشش میں لگے رہے-

یہ الگ بات کہ تیسری باری مزہ چکھنے والے شخص کی رعونت دیکھی نہ جاتی تھی- حرمین شریف میں طویل قیام سے ممکن ہے کہ صبر و تحمل کا حوصلہ پایا ہو اور اقتدار تک پہچانے والا سیاسی تدبر اپنی جگہ مگر باڈی لینگوئج و لہجے کو عوامی بنانے کے لیئے محترم کو ابھی بہت پریکٹس کی ضرورت کہ دشمنوں کی اڑتی اڑائی سے سنا ہے کہ ووٹنگ کے وقت پہنے ہوئی گھڑی کی مالیت چالیس لاکھ تھی-

اب جھوٹ سچ تو خدا جانے مگرموصوف کے خزانے کے مالک نے بھی آخر مان ہی لیا ھے کہ ملک کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی غربت کی لکیر کے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے-

جس دن میڈیا پورے پاکستان کو اقتدار کی پرامن منتقلی کی خبر کو بار بار نشریات کا حصہ بنا کر تاریخی معرکے کا عندیہ دے رہا تھا، ٹھیک اسی دن سندھی روزنامے میں وجہِ غربت سے خودکشی کرنے والی تین مختلف ایک انچی خبریں اخبار کی زینت بنی تھیں-

ایسی خبریں اب ایک ڈھونڈو ہزار ملتی ہیں کی مانند اب ڈھونڈنی نہیں پڑتیں- گر آپ کسی محل کے مکیں نہیں ہیں اور لوڈشیڈنگ کے اوقات آپ کی بھی زندگی اجیرن بناتے ہیں تو پھر یہ جاننے کے لیئے آپ کو کسی گوگل سرچ کی ضرورت نہیں کہ اس مملکتِ خداد میں ابھی تک بھوک کی فیملی پلاننگ ممکن نہیں ہوئی ہے-

ان اعداد وشمار کے گورکھ دھندے نے اس فاقہ زدہ اکثریت سے ان سب کے نام چھین کر ان کو بے چہرہ و بے شناخت بنا کر ہندسوں میں تبدیل کر دیا ھے-

ڈریئے مت، کسی نظریئے کا پرچار نہیں ہے، مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ اعداد و شمار میں بات کریں کہ پچھلے پانچ سال میں غذائی قلت کا شکار آبادی پچیس فیصد سے بڑھ کر اکاون فیصد ہوگئی ہے-

اس سے زیادہ کون سی بات روح کو تکلیف دے گی کہ آپ کے گھر میں کام کرنے والی بڑھیا کے گھر کا اب چولہا نہیں جلتا اور اسکے بچے اسکے لوٹنے تک بھوکے رہتے ہیں کہ گر بچی کھچی روٹی گھر جائے گی تو پیٹ میں ایندھن ڈلے گا-

اگر یہ کہا جائے کہ اقوام متحدہ کہ مطابق پاکستان میں 35 لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں تو شاید ہم میں کسی کو بھی توفیق نہ ہو کہ جان پائیں کہ یہ 35 لاکھ بچے کس کے ہیں مگر دور دیہات میں ان جنم جلی ماؤں سے پوچھیں تو کہتی ہیں کہ؛

’جانے کس ڈائن نے میرا گھر دیکھ لیا ہے کہ نو مولود بچے طرح طرح کی بیماریوں میں مرنے لگے ہیں‘- ان کو بھی شاید اس ڈائن کا نام پتہ نہیں معلوم جسےاب غذائی قلت کہا جا رہا ہے-

نہیں معلوم کہ اس حکمران نے، جس نے پہلی بار ہمیں گھاس کھلا کر ایٹم بم کا تحفہ دیا، ساتھ میں گھر گھر بھوک بم کے گفٹ پیک مفت فراہم کیئے، وہ سندھ میں کوئلے کے بڑے ذخائر رکھنے والے تھر کے اس گاؤں کے بارے میں جانتے بھی ہیں یا نھیں جہاں آپ کوپچیس سے تیس سال کی عمر کے بوڑھے خواتین و مرد مل سکتے ہیں کہ تھر میں پانی نہ ہونے کی وجہ سے کنویں کا کھارا پانی پینے سے دانت و بال جھڑ جاتے ہیں، چہرے پہ جھریاں پڑ جاتی ھیں اور کمر دہری ہو جاتی ہے اور یوں وہ طبعی عمر سے پہلے بوڑھے ہو جاتے ہیں-

ان گونگوں کے گاؤں متعلق بھی پتہ نہیں کتنے لوگ جانتے ہونگے جہاں 80 فیصد آبادی گونگے لوگوں کی ہے- گاؤں میں قوت گویائی سے محروم بچوں کی متواتر پیدائش کی وجہ، میڈیکل میں دورانِ حمل ماں کی کم غذائیت بتائی جا رہی ہے-

دیہاتون میں آئے دن عجیب و غریب بیماریوں کے چرچے ہوتے ہیں جن کو مقامی، غیبات کا اثر کہہ کر میشتِ الٰہی کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں- کیونکہ ڈاکٹروں کی یہ رپورٹ ان تک کبھی نہیں پہنچ پاتی اور نہ ہی وہ اس کو سمجھ سکتے ہیں کہ؛

"اگر خوراک کی کمی مسلسل رہے تو مسوڑھے سوج جاتے ہیں اور دانت گرنے لگتے ہیں- اعضا متاثر ہوتے ہیں اور دل کے امراض بھی جنم لیتے ہیں- خصوصاً ابتدائی عمر میں خوراک کی کمی سے دماغی بڑہوتری نہیں ہوپاتی اور بچے کا آئی کیو بھی کم ہوسکتا ہے- پھر اس کے اثرات پوری زندگی رہتے ہیں اور بلوغت تک کا عرصہ متاثر رہتا ہے- کھانے کی کمی سے اور دماغی امراض کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ بائی پولر ڈس آرڈر اور شیزوفرینیا جیسی بیماریوں کا تعلق اومیگا تھری نامی فیٹس کی کمی سے ہے"-

مگر اس آبادی کا اس سے کیا تعلق جو راہ جمہور کو سیدھا کرتے، منصب اقتدار سے اپنی نسلوں تک کی خوشحالی کا سامان جمع کر جاتے ہیں-

پہلی باری، دوجی باری، تیسری باری- جمہوریت کے اس باری باری والے کھیل تماشے میں بھوک و غربت سے یوں تماشہ بنی زندگی، اپنی بے زبانی میں یہ ضرور پوچھتی ہے کہ؛

"میری باری کب آئے گی؟"


amar sindhu80   امرسندھو ایک لکھاری، ایکٹوسٹ اور کالمنسٹ ہیں اور ہمارے سماج میں ابھی تک ان فٹ ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

میاں محسن ضیاء Jun 16, 2013 03:29am
بہت خوب۔۔۔۔ اقتدار کے بھوکے رزق کے بھوکوں کے منہ سے کیسے نوالہ چھینتے ہیں آپ تحریں بہترین عکاسی کرتی ہیں