شاہ سلمان نئے سعودی بادشاہ بن گئے

23 جنوری 2015
سعودی عرب کے 79 سالہ نئے بادشاہ  سلمان بن عبدالعزیز السعود ۔ ۔ ۔ فوٹو : اے ایف پی
سعودی عرب کے 79 سالہ نئے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز السعود ۔ ۔ ۔ فوٹو : اے ایف پی

ریاض : سعودی عرب کے 91 سالہ شاہ عبداللہ بن عبد العزیز کی وفات کے بعدان کے 77 سالہ سوتیلے بھائی شہزادہ سلمان بن عبد العزیز سعودی عرب کے بادشاہ بن گئے ہیں۔

گذشتہ سال (2014) دسمبر میں 91 سالہ شاہ عبداللہ کو طبیعت خراب ہونے پر اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا۔

شاہ عبداللہ کی وفات کے بعدان کے 79 سالہ سوتیلے بھائی شہزادہ سلمان سعودی عرب کے بادشاہ بن گئے ہیں۔

انھیں دو برس قبل شہزادہ نائف بن عبدالعزیز کی وفات کے بعد ولی عہد نامزد کیا گیا تھا۔

شاہ عبداللہ نے 2005 میں سعودی عرب کا اقتدار سنبھالا تھا اور حالیہ برسوں میں ان کو صحت کے متعدد مسائل رہے۔

شاہ عبداللہ کی انتہائی خراب صحت کے باعث گذشتہ کچھ عرصے سے شہزادہ سلمان ہی مختلف تقریبات میں ان کی نمائندگی کرتے آئے ہیں۔

سعودی عرب کے نئے حکمراں شاہ سلمان بن عبدالعزیز اس سے پہلے وزیر دفاع رہ چکے ہیں۔

شاہ سلمان بن عبدالعزیز 31 دسمبر انیس 1935 کو پیدا ہوئے۔

تعلیم اپنے دادا السعود کی طرف سے شاہی خاندان کیلئے بنائے گئے اسکول میں حاصل کی۔

1950 میں انہیں سرکاری عہدے پر شاہ عبدالعزیز نے اپنے نمائندے کے طور پر متعارف کروایا۔

1954 میں انہیں ریاض کا میئر بنایا گیا تو ان کی عمر 19 برس تھی۔

20 سال کی عمر میں 1955 میں انہیں وزیر کا عہدہ بھی مل گیا۔

1963 میں جب وہ صرف 27 سال کے تھے تو ان کو ریاض کا گورنر بنایا گیا جس کو انہوں نے ایک چھوٹے سے قصبے سے عالی شان صوبے میں بدل دیا، انھوں نے غیر ملکی سرمایہ کاری پر خصوصی توجہ دی جبکہ مغرب سے تعلقات کو مضبوط کردیا۔

شاہ سلمان بن عبدالعزیز 1963 سے 2011 تک 48 سال تک صوبہ ریاض کے گورنر رہے۔

5 نومبر 2011 کو انہیں سعودی عرب کا وزیر دفاع مقرر کیا گیا۔

18 جون 2012 کو شہزادہ سلمان اپنے بھائی شہزادہ نائف کے انتقال کے بعد ولی عہد مقرر ہوئے۔


نئے شاہ کو در پیش چیلنجز


سعودی عرب کے نئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو ملک میں بے روزگاری، خواتین کے حقوق، سیاسی تحاریک سمیت دہشت گردی جیسے مسائل کا سامنا ہوگا۔

مسلم ممالک میں امیر ترین ریاست اور مسلمانوں کی مقدس سرزمین سعودی عرب اس وقت کئی مسائل سے دوچار ہے۔

نئے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کو نوجوانوں کی بے روزگاری، عراق اور شام سے جہادیوں کی واپسی اور سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی "سیاسی" مہم جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔

سعودی عرب کی 60 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے 12 فیصد سے زائد بے روزگار ہیں۔

ملک میں پانی کے نئے ذخائر، تعلیم کی ابتر صورت حال بھی توجہ کی متقاضی ہوگی۔

شاہ سلمان کو مشرقی صوبوں میں شورش کا مسئلہ بھی درپیش ہوگا، ملک میں آل سعود پر بڑھتی ہوئی تنقید بھی ان کے آڑے آئے گی۔

نئے سعودی حکمراں کو امریکا ایران تعلقات میں بہتری، اردن اور ترکی سے بھی واشنگٹن کے تعلقات سعودیہ کے لئے باعث تشویش ہوں گے۔

دوسری جانب یہ بی کہا جاتا ہے کہ "اخوان المسلمون" بھی سعودی عرب کیلئے خطرہ بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

دولت اسلامیہ اور القاعدہ کے حملوں کا خطرہ بھی موجود ہے، جس کے لیے سعودی عرب نے عراق کے ساتھ اپنی سرحد پر دیوار بھی تعمیر کرنا شروع کر دی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں