ویسے تو دنیا بھر کو معلوم ہے کہ پہلا ہوائی طیارہ امریکا کے رائٹ برادرز کی ایجاد ہے مگر بولی وڈ کا خیال اس سے بالکل مختلف ہے اور اس کے بقول 1895 یعنی رائٹ برادرز سے آٹھ سال پہلے ایک ہندوستانی سائنسدان شیوکر باپوجی تلپاڈے نے پہلا طیارہ اڑایا تھا۔

اور اسی کہانی کو لے کر فلم 'ہوائی زادہ' بنائی گئی ہے تاکہ ہندوستانی تاریخ کے اس گمنام ہیرو کو خراجِ تحسین پیش کیا جاسکے، مگر یہ کوشش انتہائی ناکام ثابت ہوئی اور ایک دو کو چھوڑ کر اس کا ہر شعبہ انتہائی غیر متاثرکن رہا ہے۔

مختصر کہانی

فلم میں شیو تلپاڈے (ایوشمان کھرانہ) ایک ایسا آزاد نوجوان دکھایا گیا ہے جو چوتھی جماعت میں آٹھ بار فیل ہوچکا ہوتا ہے اور اپنے خاندان کے لیے باعث شرم ہوتا ہے۔

پھر وہ ایک ڈانسر ستارہ (پلوی شردا) کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے تاہم جب شیو کا والد اسے آوارہ گردی کی زندگی گزارنے پر گھر سے باہر نکال پھینکتا ہے تو وہ ایک دیوانے سائنسدان سبھریا شاستری (متھن چکرورتی) کا اسسٹنٹ بن جاتا ہے جو خفیہ طور پر ایک طیارہ بنانے کے لیے تجربات میں مصروف ہوتا ہے۔

کئی بار کی ناکام کوششوں کے بعد یہ دونوں ایک طیارہ تیار کر ہی لیتے ہیں مگر اسے چھپا کر رکھا جاتا ہے کیونکہ ہندوستان پر حکمران برطانوی افسران مقامی افراد کو کسی قابل نہیں سمجھتے، جبکہ شیو کا استاد شاستری اسی دوران دنیا سے گزر جاتا ہے اور وہ کسی نہ کسی طرح اسے تعبیر دے دیتا ہے۔

ناقص اسٹوری و ہدایتکاری

کہا تو جاتا ہے کہ شیوکر تلپاڈے نے پہلا طیارہ 1895 میں مرکری (پارہ) کو بطور ایندھن استعمال کر کے اڑایا مگر اس فلم میں اسے کسی حقیقت کے بجائے خالص بولی وڈ اسٹائل میں پیش کیا گیا ہے اور اس میں دکھائی جانے والی چیزیں اتنی مصنوعی ہیں، کہ دیکھنے والوں کے لیے اسے دیکھنا ہی مشکل ہوجاتا ہے۔

فلم میں طیارے کی تاریخ بتانے کی کوشش کے ساتھ شیو اور ستارہ کی محبت بھی دیکھنے والوں کا دھیان ہٹا دیتی ہے کیونکہ اس کے لیے ہیرو کے اڑنے کے عزم میں دلچسپی رہتی ہے اور نہ ہی محبت میں گرفتار جوڑے کے ساتھ ہمدردی ہوتی ہے اور اس کی وجہ ڈائریکٹر کی جانب سے دونوں ٹریکس پر زیادہ محنت نہ کرنا ہی سمجھ میں آتی ہے۔

اسی طرح زبردستی کی وطن پرستی اور روایتی بولی وڈ انداز ہدایتکار کی نو آموزی کا ثبوت ہیں۔

غیرمتاثر کن اداکاری

فلم میں ایک طرف تو ہندوستان کا گمنام ہیرو اپنی جگہ بنانے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے اور اس کے لیے اچھی کردار نگاری کی ضرورت تھی مگر مرکزی کردار شیو تلپاڈے یعنی ایوشمان کھرانہ کسی بھی جگہ متاثر کن نظر نہیں آئے بلکہ ان کے مقابلے میں متھن چکرورتی زیادہ بہتر نظر آئے حالانکہ ان کی اداکاری کا معیار بھی کچھ خاص نہیں تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں مرکزی کرداروں سے زیادہ اچھی اداکاری ہیروئن پلوی نے کی جن کی یہ رنبیر کپور کے ساتھ ڈیبیو فلم 'بے شرم' کے بعد دوسری فلم تھی۔

موسیقی اور سیٹس

اس فلم میں اگر کوئی چیز اچھی ہے تو وہ اس کی موسیقی اور 1895 کی عکاسی کرتے بمبئی کا سیٹ ہے جو واقعی متاثر کن ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سیٹ ممبئی کے بجائے ریاست گجرات کے علاقے گوندل میں تیار کیا گیا تاہم یہ کافی حد تک اسی زمانے کا لگتا ہے جو فلم میں دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اچھے گانے بھی لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں کامیاب رہے ہیں۔

یہ فلم ڈائریکٹر وبھو وریندر پوری کی پہلی فلم تھی اور انہوں نے اس کے لیے مرکزی خیال تو بہت اچھا لیا جو دیکھنے والوں کے لیے متاثر کن بھی ثابت ہو سکتا تھا تاہم بحیثیت مجموعی یہ انتہائی مایوس کن تجربہ ثابت ہوا کیونکہ فلم میں تو ہوائی زادہ نے اپنا خواب پورا کرلیا مگر دیکھنے والوں کے اس پیشکش سے متعلق خواب ضرور منتشر ہوکر رہ گئے۔ یہ گمنام ہیرو لگتا ہے کہ کسی کو پسند آنے کے بجائے سیدھا ناکامی کی دلدل میں ہی جا کر گرے گا۔

ڈھائی گھنٹے سے زائد دورانیے کی اس فلم کے ڈائریکٹر وبھو وریندر پوری نے ہی اسے سورابھ بھوے کے ساتھ مل کر تحریر کیا ہے جبکہ اس کے پروڈیوسرز راجشن نگا، وبھو وریندر پوری اور وشال گورانی ہیں۔

فلم کی کاسٹ میں ایوشمان کھرانہ، متھن چکرورتی، پلوی شردھا اور نمن جین وغیرہ نمایاں کرداروں میں شامل ہیں۔

اگر ریٹنگ کی بات کی جائے تو اسے پانچ میں سے ایک ہی نمبر بمشکل دیا جاسکتا ہے تاہم سیٹس اور موسیقی کی بدولت اسے دو اسکور دینا بھی ٹھیک ہو گا۔

تبصرے (0) بند ہیں