حسن روحانی ، اے ایف پی فوٹو۔۔۔۔

تہران: ایران کے وزیر داخلہ نے کہا کہ ایرانی صدراتی انتخابات میں اعتدال پسند امیدوار حسن روحانی کامیاب ہو گئے ہیں۔

مصطفٰی محمد نجر نے ہفتہ کے روز تہران میں پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ حسن روحانی نے18.6  ملین ووٹ حاصل کیے ہیں، یا ان کا ٹرن آؤٹ50.68  فیصد رہا ، جمعہ کو منعقد ہونے والے انتخابات میں 36.7 ملین ووٹ ڈالے گئے تھے۔

تہران کے میئر محمد باقر قالیباف  قدامت پرست امیدوار6.07  ملین ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے۔

جوہری مزاکرات کار سعید جلیلی 4.16 ملین ووٹ حاصل کر کے تیسرے نمبر پر رہے۔

 پاسدارن انقلاب کے سابق سربراہ محسن رضائی نے 3.88 ملین جبکہ سابق وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی نے 2.26 ملین ووٹ حاصل کیے۔

حالیہ انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کل 680 سے زائد امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے تاہم ان میں سے آٹھ کو قسمت آزمائی کی اجازت ملی، اس دوران 30 خواتین نے بھی انتخابات میں حصۃ لینے کی خواہش ظاہر کی تھی تاہم بعدازاں ایک اعلان کے بعد خواتین کے الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گزشتہ الیکشن کے لیے بھی 450 سے زائد افراد نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے تاہم صرف چار کو الیکشن لڑنے کی اجازت ملی۔

صدر بننے کی دوڑ میں آٹھ امیدوار آمنے سامنے تھے تاہم پیر کو سابق اسپیکر غلام علی عادل اور پھر پیر کو رضا عارف نے انتخابات سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا تھا اور اب بقیہ چھ امیدواروں میں سے پانچ قدامت پسند جبکہ ایک اصلاح پسند امیدوار آمنے سامنے تھے۔

ان امیدواروں میں سابق وزیر خارجہ علی اکبر ولایتی، آیت اللہ خامنائی کے قریبی ساتھی ڈاکٹر سعید جلیلی، سابق ڈپٹی اسپیکر حسن روحانی، تہران کے میئر بغیار غالبوف، نیشنل گارڈز کے سابق سربراہ محسن رضائی اور محمد غرازی شامل تھے۔

ایران کے اب تک ہونے والی تمام صدارتی انتخابات میں 209 کے الیکشن سب سے زیادہ عالمی توجہ کا مرکز رہے جسے عالمی دنیا نے متنازع قرار دیا تھا، اس موقع پر عام خیال ظاہر کیا جا رہا تھا کہ صدر محمود احمدی نژاد کے مدمقابل سابق وزیر اعظم میر حسین موسوی اپنی اصلاح پسندی کے حوالے سے کی گئی تقریروں کے باعث انتخابات میں کامیابی حاصل کر لیں گے تاہم جب نتائج کا اعلان ہوا تو نژاد بھاری اکثریت سے کامیاب ٹھہرے تھے جس پر اپوزیشن نے نتائج ماننے سے انکار کر دیا تھا اور ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے جس کے بعد ووٹوں کی دوبارہ گنتی فیصلہ کیا گیا تاہم کامیابی احمد نژاد کا ہی مقدر ٹھہری۔

ایران میں 1979 میں آیت اللہ خمینی کی زیر قیادت آنے والے ایرانی انقلاب کے بعد مشاورتی نظام نافذ کیا گیا تھا، خمینی کے بعد آیت اللہ خامنائی ایران کے سپریم لیڈر مقرر ہوئے جن کی مشاورت کے لیے بارہ رکنی علماء کونسل قائم ہے جو تمام معاملات میں فیصلہ کن اختیارات رکھتی ہے۔

ایران میں ہر بالغ کو انتخاب میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے لیکن اس کے لیے امیدوار کو سپریم لیڈر اور علماء کونسل کی منظوری درکار ہوتی ہے۔

مذکورہ انتخابات اس لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں کہ ایران کے موجودہ صدر احمدی نژاد جو دو دفعہ منصب صدارت پر فائض رہ چکے ہیں، وہ ایرانی آئین کے مطابق دوبارہ صدر بننے کی دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں کیونکہ ایران میں کوئی بھی شخص دو دفعہ سے زیادہ مدت صدارت پر فائض نہیں رہ سکتا۔

صدارتی انتخاب میں کامیابی کے لیے ہر امیدوار کو کم از کم 50 فیصد ووٹ لینا ہوتے ہیں جہاں صدر کو براہ راست عوام کے ووٹوں کی روشنی میں منتخب کیا جاتا ہے.

تبصرے (0) بند ہیں